یہ تو سب ہی کہتے ہیں کہ ملک میں آبادی بہت ہے یا ملک میں ٹریفک بہت بڑھ گیا ہے لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ وہ خود بھی اس بھیڑ کا حصّہ ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ شہر میں بڑھتی آبادی بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے ملک کی خراب معیشت کی۔ پاکستان کا جو سب سے بڑا مسئلہ سامنے آیا ہے وہ ملک کی بڑھتی آبادی ہے۔ بڑھتی آبادی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کا تعلق وزیراعظم یا ان کے فیصلوں سے نہیں بلکہ خاندان کی اپنی مرضی اور رائے کے اوپر ہے۔
US کی جاری کردہ 2020 تک کی ورلڈ پاپولیشن ڈیٹا شیٹ کے مطابق دنیا بھر کی آبادی 7.8 ملین لوگوں پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کو دنیا بھر کا سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا خطہ ٹھہرایا گیا اور اس خطے کے اندر پاکستان اورافغانستان اس فہرست میں سب سے آگے ہیں۔ افغانستان کی بڑھتی آبادی کی شرح پاکستان سے 4.5 per couple زیادہ ہے، لیکن کیونکہ کرونا کی وجہ سے موت کی شرح کافی بڑھ گئی ہے اور لوگ زندہ رہنے سے قاصر ہیں،ان حالات میں بھی ملک کی آبادی کی شرح 38.9m ہے۔
پاکستان کی آبادی کی شرح ہر سال دگنی ہو جاتی ہے۔ پاکستان کو اپنی بڑھتی آبادی روکنے کے لیے چاہیے کہ وہ سال میں %2 اپنی شرح کو کم کرے تاکہ آبادی کم ہو سکے۔ بنگلہ دیش کی ٹوٹل آبادی 2020 میں تقریباً 169.8m اور آبادی کی شرح 2.3 ہے۔1.424 ملین آبادی کے ساتھ چائنا ابھی بھی دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے لیکن قابل تعریف بات یہ ہے کہ چائنا نے اپنے fertility rate یعنی کہ زرخیزی کی شرح کو کم کرکے 1.5 پہ لے آیا ہے۔ اس کے مطابق 2050 تک چائنہ کی آبادی بہت کم ہو جائے گی۔
تقریباً 1.4 بلین کی آبادی کے ساتھ انڈیا دنیا کی اس فہرست میں دوسرے نمبر پر آتا ہے لیکن اس نے بھی اپنی زرخیزی کی شرح کو کم کرکے 2.2 کر لیا ہے۔ US میں مکمل 329.9m باشندے ہیں اور 2020 سے لے کر 2050 تک اس کی آبادی بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ لیکن اس کی بھی زرخیزی کی شرح 1.7 ہیں جو کہ کافی کم ہے۔
وسطی افریقہ سب سے چھوٹا خطہ ہے جہاں آبادی کا %46 حصّہ 15 سال کی عمر سے کم ہے۔ جنوبی یورپ دنیا کا سب سے پرانا خطہ ہے جس کی آبادی کا %23 حصّہ 65 کی عمر کا یا اس سے زیادہ ہے۔ ایشیا دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا خطہ ہے اور اس کی مجموعی آبادی میں 15 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ یہ 2020 میں 4.6 بلین سے 2050 میں 5.3 بلین ہو جائے گی۔
البتہ، مستقبل میں آبادی میں تبدیلی کا انداز مشرقی ایشیاء میں 38 فیصد اضافے پر مشتمل ہے۔ ایشیا کی زرخیزی کی کل شرح 2.0 پر ہے۔بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ بہت سے مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ بے روزگاری، جرائم، غربت وغیرہ۔ اگر اسی طرح ہمارے ملک کی آبادی بڑھتی رہی تو ممکن ہے کہ آئندہ 37 سال میں پاکستان دنیا کے تیسرے نمبر پر ہوگا۔
بڑھتی ہوئی آبادی کی سب سے بڑی وجہ اعلی زرخیزی ہے۔ میاں بیوی پہلے سے یہ طے نہیں کر لیتے جس کی وجہ سے آبادی میں کافی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کی کم عمر میں شادیاں کرا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں اس بات کی سمجھ نہیں ہوتی کہ ملک کے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایک جیسے صدیوں سے چلا آ رہا ہے کہ والدین کو بیٹا چاہیے۔ جب کہ اسلام ان تمام جاہلانہ باتوں سے منع کرتا ہے۔ لیکن بیٹے کی خواہش میں آبادی اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والد کو لگتا ہے کہ وہ ساری زندگی اکیلا پورا گھر نہیں چلا سکتا اس لیے اگر اس کے بیٹے ہوں گے تو اس کا سہارا بنیں گے۔ ایک اور وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی آدھی سے زیادہ عوام تعلیم یافتہ نہیں ہیں جس کے باعث انہیں اس بات کی سمجھ ہی نہیں کہ زیادہ آبادی کتنا بڑا مسئلہ ہے۔
ایک اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومت کے پاس ایسا کوئی سسٹم ہی نہیں جس سے بڑھتی ہوئی آبادی کا اندازہ لگایا جا سکے۔ حالانکہPopulation Welfare Programme of Pakistan دنیا کا سب سے پرانا پروگرام ہے لیکن اس نے بالکل بھی ترقی حاصل نہیں کی جیسا کہ باقی ملکوں نے کی، خاص طور سے بنگلہ دیش اور انڈونیشیا۔ اس کے علاوہ اور بہت سی مزید وجوہات ہیں جیسے کہ لوگوں کا دیگرمصروفیات میں شامل نہ ہونا، عورتوں کا باشعور نہ ہونا، گاوں کا کلچر وغیرہ۔
بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی عورتوں کو شعور دیں، انہیں تعلیم دیں اور انہیں اس بات کی سمجھ دیں کہ وہ دو سے زائد اولاد پیدا نہ کریں اور ان کی پرورش اعلی طریقے سے کر سکیں تاکہ وہ ملک اور معاشرے کے لئے آگے چل کر فائدہ مند ثابت ہوں۔ دوسرا یہ کہ ہمیں چاہیے ہم لوگوں کوfamily planning کے بارے میں آگاہی اور تعلیم دیں۔ ایران نے 1989 میں یہ پروگرام شروع کیا تھا جس کے بعد زرخیزی کی شرح میں کافی کمی دیکھنے کو ملی تھی۔