پہلے زمانے میں کسی بھی ملک یا قبیلے کی افرادی قوت کو اہم سمجھا جاتا تھا چاہے وہ خواندگی سے آراستہ ہوں یا نہیں بس افرادی قوت کے ہی ذریعے کوئی ملک یا قبیلہ دوسرے ملک پر حملہ آور ہوجاتا تھا اور جس ملک کی افرادی قوت زیادہ ہوتی وہ مخالف حریف پر غلبہ حاصل کر لیتا۔
اس طرح پہلے کے زمانے میں افرادی قوت کو بڑھانے پر زیادہ زور دیا جاتا تھا اور کسی بھی ملک یا قبیلے کی یہی کوشش ہوتی کہ وہ افرادی قوت کے زور پر دنیا کو فتح کرے اور دنیا کے تمام تر وسائل پر قابض ہو جائیں۔لیکن آج حالات اس کے بلکل برعکس ہیں جو افرادی قوت پہلے کبھی کسی ملک کے لیے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتی تھی اب وہ دنیا کے لیے سر درد بنی ہوئی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی سے پریشان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پاکستان اس وقت دنیا میں چھٹا اور مسلم ممالک میں آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔
پاکستان کی آبادی میں ہر آٹھ سیکنڈ بعد ایک بچہ پیدا ہو رہا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں آبادی میں اضافے کی شرح میں پاکستان سب سے آگے ہے جو 2.4 فیصد کی خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951ء میں کی گئی تھی پہلی مردم شماری کے حساب سے اس وقت پاکستان کی آبادی 75 ملین تھی جو مغربی اور مشرقی پاکستان کی مجموعی آبادی تھی لیکن اب پاکستان کی آبادی چھ گناہ بڑھ چکی ہے ۔اگر بڑھتی آبادی کی رفتار میں کمی نہیں آئی تو خدشہ ہے کہ 2070 تک پاکستان کی آبادی 35 کروڑ سے تجاوز کر جائے گی جو پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے مزید سنگین مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی مختلف سماجی برائیوں کو جنم دے رہی ہے جن میں کم عمری میں شادیاں، چائلڈ لیبر اور بچوں کا استحصال، بےروزگاری ، ناخواندگی میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی انتہا پسندی شامل ہے۔ موجودہ شرح افزائش کے پیش نظر پاکستان میں 2040ء تک بارہ کروڑ ملازمتیں پیدا کرنا ہونگی۔ 85 ہزار مزید پرائمری اسکول بنانے ہونگے اور ایک کروڑ نوے لاکھ اضافی مکانات تعمیر کرنے ہونگے۔ اس طرح صحت کے شعبے میں بھی بہت بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے ہنگم اور بےقابو آبادی ملکی وسائل بالخصوص محدود قدرتی وسائل پر سخت دباؤ ڈال رہی ہے۔ یہ صورت حال مستقبل قریب میں بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں پانی کے ذخائر پر بڑھتا ہوا بوجھ ملک کو جلد ایک پریشان کن صورت حال سے دوچار کر سکتا ہے۔ 1981 تک ہمارے ہاں پانی وافر مقدار میں مہیا تھا اور فی کس دستیابی 2.123 مکعب میٹر تھی۔ 2017 کی مردم شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب پانی کی فی کس دستیابی انتہائی کمی کا شکار ہو کر 861 مکعب میٹر فی کس کی سطح پر آ گئی ہے۔ اگر اس بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند نہ باندھا گیا تو بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ پانی کی فی کس دستیابی میں کمی کا یہ مسئلہ عنقریب مزید سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔
پانی ہی وہ واحد قدرتی عطیہ نہیں جو اس وقت سنگین خطرے سے دوچار ہے۔ اراضی اور اس کے استعمال پر بڑھتی ہوئی آبادی کے اثرات بھی توجہ طلب ہیں۔ زرعی اراضی کی دستیابی جو کہ 60 اور 70 کی دہائی میں کثرت سے تھی اس میں بھی خطرناک حد تک کمی آئی ہے۔ اس وجہ سے لوگ زراعت کا کام چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ شہری پھیلاؤ میں اضافہ زرعی اراضی کو مزید دباؤ کا شکار بنا رہا ہے۔ زرعی اراضی کا غیر زرعی مقاصد کے لیے استعمال تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے جو کہ ملک کو ایک اور بڑے بحران کی طرف لے جا رہا ہے۔
پاکستان کے لیے خود اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے اثرات گندم کی قلت کے علاوہ پھلوں اور دالوں سمیت ضروری اشیائے خوردونوش کی درآمد کی شکل میں پہلے ہی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں کیونکہ زرعی اراضی کو غیر زرعی مقاصد بالخصوص رئیل اسٹیٹ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور زیر کاشت زمینوں کو رہائشی سکیموں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس رجحان سے ملک کو ایک مستقل زرعی بحران سے دوچار ہونے کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔یورپی ممالک نے اپنی آبادی کو قابو میں رکھا اور آج وہاں وسائل کی تقسیم اور مسائل کا حل ہم سے کہیں بہتر نظر آتا ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی مسائل کو بڑھائے گی اسی سوچ کے تحت1973 ء سے اقوام متحدہ نے کنٹرول آبادی کو ایک عالمی پالیسی بنا یا ہوا ہے۔ آبادی میں تیز رفتار اضافے کی شرح چونکہ ترقی پذیر ملکوں میں زیادہ رہی ہے اس لیے ترقی پذیر ممالک سے آبادی کنٹرول کرنے کی یقین دہانیاں لی جاتی ہیں اور قرض و ترقیاتی فنڈز کیلئے تخفیف آبادی کے اہداف کو بطور شرط منوایاجاتاہے۔ اس لیے آج ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بڑھتے ہوئے مسائل کی بڑی وجہ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے۔