دنیا کی دوسری بڑی معیشت کی حیثیت سے چین کی اقتصادی سماجی پالیسی سازی کو اس وقت عالمی سطح پر ایک نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ چین نے ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر اقوام متحدہ کے 2030 کےپائیدار ترقیاتی ایجنڈے کے ساتھ اپنی درمیانی اور طویل مدتی ترقیاتی حکمت عملیوں کو ہم آہنگ کیا ہے۔چینی حکومت کی ان دو ترقیاتی حکمت عملیوں کے موثر نفاذ سے ملک میں متوازن معاشی ، سیاسی ، معاشرتی ، ماحولیاتی اور ثقافتی پیشرفت میں مدد مل رہی ہے۔ چین ایک جدت پر مبنی نقطہ نظر کے ذریعے پائیدار ترقی کے حصول کے لئے تین اہم شعبوں پر توجہ دے رہا ہے۔ ان میں ایک ماحولیاتی تہذیب کی تشکیل ، غربت کا خاتمہ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے پائیدار حل کی فراہمی کلیدی عناصر ہیں۔
چین اپنی موئثر اور کامیاب پالیسی سازی کی بدولت تمام دیہی غریب آبادی کو مطلق غربت سے نکالنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں غربت سے دوچار تمام 128،000 دیہاتوںاور 832 کاؤنٹیوں کو غربت سے نجات دلائی گئی ہے اور تقریباً 100 ملین افراد کو انتہائی غربت سے نکال دیا گیا ہے۔
چین کی جانب سے 1980 کی دہائی سے دیہی علاقوں میں غربت مٹانے کے منصوبہ جات کو مستقل ، منظم اور مربوط طور پر آگے بڑھایا گیا، بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ انسداد غربت پالیسی انتہائی کارگر ثابت ہوئی اور دیہی علاقوں میں کروڑوں لوگوں کو غربت کی دلدل سے نکالا گیا۔ تاہم کچھ چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑا جس میں ایک اہم مسئلہ نا قابل رسائی اور دشوار گزار علاقوں میں لوگوں کی امداد کا بھی تھا۔ اس چیلنج سے نمٹنے کی خاطر 2013 میں “اہدافی انسداد غربت کی حکمت عملی” متعارف کروائی گئی۔
اس پالیسی کے تحت تین مراحل میں غربت سے دوچار علاقوں اور گھرانوں کے درست تعین کی بنیاد پر اہداف طے کرتے ہوئے عملی اقدامات کیے گئے اور فنڈز میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ۔غربت زدہ گھرانوں کی نشاندہی کی گئی، گھریلو سروے ، سماجی مشاورت ، عوامی معلومات کے لئے فون کالز اور اسپاٹ چیک جیسے موئثر اقدامات کے تحت اعداد و شمار جمع کیے گئے۔ اس مشق کا فائدہ یہ ہوا کہ غریب ترین افراد کی درست نشاندہی ممکن ہوئی۔پھر غریب گھرانوں کی عین ضروریات کے مطابق انسداد غربت کے مخصوص اقدامات ترتیب دیتے ہوئے ان پر عمل درآمد کیا گیا۔
ان اقدامات میں غریب افراد کی دشوار علاقوں سے موزوں مقامات پر نقل مکانی، صنعتی ترقی، سماجی تحفظ اور تعلیمی ترقی وغیرہ شامل ہیں۔درجہ بہ درجہ ایسےساختہ اقدامات دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے کے لئے موئثر ثابت ہوئے۔ہر فرد کے لیے روزگار ،صحت ،تعلیم اور رہائش جیسی بنیادی سہولیات کو یقینی بنایا گیا اور اہدافی انسداد غربت کے تحت انہیں سطح غربت سے باہر نکالا گیا۔
انسداد غربت کے ساتھ ساتھ ایک اور شعبہ جہاں چین 21 ویں صدی کے چیلنجوں سے نمٹنے کی خاطر مربوط ترقی کے لئے جدت طرازی پر مبنی نقطہ نظر اپنا رہا ہے وہ ماحولیاتی تہذیب ہے۔ بلاشبہ ماحولیات ،معیشت اور معاشرت پائیدار ترقی کے بنیادی عوامل ہیں جبکہ ماحولیاتی تہذیب اس دائرہ کار کو مزید وسیع کرتی ہے کیونکہ یہ اپنے اندر کئی دیگر عناصر کو سموئے ہوئے ہے ۔
چین ماحولیاتی تہذیب کی تعمیر کے لئے اختراع پر انحصار کر رہا ہے۔ تحفظ ماحول کے لیےشہروں کی سائنسی اور تکنیکی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا گیا ہے ۔ گرین رقبے میں نمایاں حد تک اضافے سے اسے شہروں کی تعمیراتی منصوبہ بندی کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے۔ صنعتوں میں گرین ہاؤس گیسوں کے کم اخراج کی حامل اور ماحول دوست صنعتوں کو ترجیح حاصل ہوئی ہے۔ آبی آلودگی سے نمٹنے کے لئے وسائل کے موئثر استعمال کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ گندے پانی کی نکاسی کے ساتھ ساتھبارشی پانی کے تحفظ اور پانی صاف کرنے والے پلانٹس کو نمایاں اہمیت دی گئی ہے۔ اسی طرح توانائی کی کم کھپت کی خاطر تمام بجلی گھروں کو اپ گریڈ کیا گیا ہے۔
چین موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ حالیہ برسوں میں چین نے توانائی کے شعبے میں قابل تجدید توانائی کے استعمال میں اضافہ کیا ہے۔ قابل زکر بات یہ ہے کہ 2013 میں چین کے نصب شمسی فوٹو وولٹک آلات کی صلاحیت تمام یورپی ممالک کی مشترکہ پیداوار سے تجاوز کر چکی ہے۔ چین اس وقت قابل تجدید توانائی آلات کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے ۔
اس کے علاوہ چین پن بجلی ، بائیوگیس اور ہوا سے توانائی کی پیداوار کے لحاظ سے بھی دنیا میں سرفہرست ہے۔ ملک میں فضلے سے توانائی کی پیداوار کا ایک موئثر نظام موجود ہے۔ چین کی ان متاثر کن کامیابیوں کی ایک اہم وجہ”تحقیق اور ترقی” میں سرمایہ کاری میں مسلسل اضافہ ہے۔چین میں تحقیقی شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ملک کی اختراع پر مبنی حکمت عملی کو فروغ دے رہی ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے متعلق چیلنجوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کی کوششوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔
چین نے دیگر دنیا کے لیے بھی ایک عمدہ مثال قائم کی ہے کہ مادی ترقی اور ماحول کے تحفظ کے مابین ہم آہنگی سے آگے بڑھا جائے ۔ کم کاربن اور سبز ترقی کا حصول انسانی بقاء کے لیے لازم ہے ،اس مقصد کی خاطر سخت کوششوں اور مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے۔