جب ہم دنیاوی ترقی کے اسلامی تصور پر غور کرتے ہیں تو وہ اپنے اندر جامعیت اور کمال کی شان رکھتے ہیں کہ اس نے حیات انسانی کی ہر پہلو سے ترقی کو مد ّ نظر رکھا ہے لہذا اگر اس کے کسی پہلو کو بھی نظر انداز کر دیا جائے تو یہ کمال دین کے منافی ہو گا ، امام بخاری فرماتے ہیں : جب کمال میں سے کوئی چیز رہ جائے تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے ۔( الصحیح بخاری، کتاب الایمان )ترقی کے جامع تصور کی نمائندگی ، اللہ تعالی کے صفات میں سے صفت’’ ربو بیت ‘‘ کرتی ہے ، ربو بیت کسی چیز کو اس کے نقطہ آغاز سے تکمیل تک پہنچانے کے عمل کو کہا جاتا ہے جو بذات خود ترقی کے مفہوم کے مترادف ہے لہذا ’’ رب الناس ‘‘ کا عام فہم معنی ، افراد انسانیت کوشاہراہ ترقی پر گامزن کرنے والا اور انہیں آگے بڑھنے کی صلاحیتوں کو جلا دینے والا او ر یہ ترقی ہمہ جہتی ہے مادی بھی او ر روحانی بھی ،اسلام کے حوالہ سے روحانی ترقی کی فکرتو تقریباََ مسلّم ہے لیکن مادی ترقی کی اہمیت کے بارے میں قرآن حکیم کے نقطہ نظر کا مطالعہ کیا جا نا چا ہیے۔
چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالی نے انسانی ترقی کوبہترین لائحہ عمل کے طور پر تسخیر کائنات سے مربوط کیا ہے ، اور قرآن حکیم میں متعدد مقامات پراس کی تذکیر و یاد ہانی کرائی گئی ہے ، مثلاََ ارشاد خداوندی ہے : ۔ ’’ کیا تم نہیں دیکھتے کہ بلا شبہ اللہ نے تمہارے لئے وہ تمام چیزیں مسخر کر دیں ، جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور تم پر اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں مکمل کر دیں ۔‘‘ ( سورہ لقمان:۲۰)آیت مبارکہ میں آسمان و زمین میں موجود مادی اشیاء کو انسان کے لئے مسخر کرنے پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے کہ انسان ان اشیاء سے حسب منشا کام لینے اور ان کے ذریعے ایجادات کی صلاحیت سے مالا مال ہے جس سے انسانی معاشرے میں ترقی کو فروغ حاصل ہوتا ہے نیز تسخیر اشیاء کے ساتھ انسان پر مکمل کیجانے والی ظاہری و باطنی نعمتوں کا ذکر اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ مادی ترقی بھی اسی طرح کی نعمت خداوندی ہے جیسے روحانی ترقی،ان دونوں میں سے کسی ایک کا انکار کفران نعمت کے مترادف ہوگاجو بموجب نص قرآنی عذاب شدید( القرآن الحکیم، سورہ ابراہیم : ۷) یعنی دنیاوی پسماندگی و پستی ، غلامی و درماندگی اور اخروی سزا کا موجب ہے۔
اسلام نے مادی تصور ترقی کے منافی رویہ کو رھبانیت کے عنوان کے تحت اپنے لئے اجنبی قرار دیا ہے اور اسکی حوصلہ شکنی کی ہے ،نہ صرف یہ بلکہ قرآن حکیم نے متعددمقامات پر مادی انعامات کامفصل ذکر کر کے ان کو افراد انسانیت اور ان کے مویشیوں کے لئے’’ متاع ‘‘ قرار دیا ہے۔ مثلاََ سورہ النازعات اور سورہ عبس میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے ، مزید برآںقرآن حکیم میں انسانوں کے لئے مویشیوں اور جانوروں کی افادیت کو ایک مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے ۔ : ’’ اللہ تعالی ٰ نے مویشی پیدا کئے جن میں تمہارے لئے سردی سے بچائو کا سامان ہے اور (بھی) بہت سے فائدے ہیں اور ان میں سے( ان کا گوشت ) کھاتے بھی ہو اور تمہارے لئے ان میں خوبصورتی ( کا پہلو بھی ) ہے جب شام کو انہیں چرا کر لاتے ہو اور جب چرانے لے جاتے ہو اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا کران شہروں تک لے جاتے ہیں جہاں تم جان کو مشقت میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے ، بلا شبہ تمہارا رب بہت شفقت کرنے والا نہایت رحم والا ہے اور اس نے گھوڑے ، خچر اور گدھے ( جیسے جانور) پیدا کئے تاکہ ان پر سوار ہو سکو اور زینت ( حاصل کرو)اور وہ ایسی چیزیں پیدا کرے گا جو تم نہیں جانتے ۔‘‘ ( گویا مستقبل کی مادی ترقیات کی وسعت کی طرف اشارہ ہے )۔
جب اللہ تعالی نے آدم ؑ انسان اول کو خلافت ارضی کے منصب پر فائز کیا تو اس کی اہلیت کے لئے ’’ علم الاسماء کلھا‘‘ ضروری قرار پایا جسمیں مادی اشیاء کی خصوصیات ، صنعت و ٹیکنالوجی کے قوانین اور آلات کار سے متعلقہ علوم شامل تھے ( البیضاوی ، عبداللہ بن عمر، ناصر الدین : انوار التنزیل و اسرار التاویل ، تفسیر سورہ البقرہ : ۳۱)کیونکہ اس علم کے بغیر دنیا میں غلبہ اور ترقی ممکن نہیں گویا مادی اشیاء پر تحقیق اور ان کے خام مواد سے ایجادات و اکتشافات کا عمل خلافت کا تقاضا ہے اسی بنا پر قرآنی حکم ہے :۔’’ اور ان ( دشمن ) کے مقابلہ کے لئے جتنی طاقت حاصل ہو سکے اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی تیاری کرو کہ اس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو مرعوب کر سکو ‘‘۔ ( سورہ الانفال : ۶۰)اس آیت سے یہ دلیل اور رہنمائی بھی ملتی ہے کہہ ہر دور کے عصری تقاضا کے مطابق مناسب طاقت کا حصول ضروری ہے خواہ صنعتی و زرعی ٹیکنالوجی ہو یا تعلیمی ، سماجی ، معاشی و ایٹمی توانائی کی صلاحیت ہو کہ اس کے حصول سے معاشرہ کا اعتبار اور وقار قائم ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایٹمی قوت ہونے کے باوجود کثیر القومی کمپنیوں ، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور عالمی بنکوں و حکومتوں کے دبائو اور بلیک میلنگ کا شکار رہتا ہے کہ اس کی معاشی حالت دگر گوں اور تعلیمی صورتحال غیر تسلی بخش ہے۔
لہذا ضروری ہے کہ حصول قوت کے عصری تقاضوں سے حاصل کی جائے اور اس کے مطابق حکمت عملی تیار کی جائے اور یہی منشاء خداوندی ہے ۔جیسا کہ حضرت نوح ؑ کو اس دور کے تقاضے کے مطابق آئندہ پیش آنے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے حکم دیا گیا : ’’ ہماری نگرانی اور ہدایت کی روشنی میں کشتی (جہاز سازی ) کا کام کریں ۔‘‘ ( سورہ ھود : ۳۷) اسی قرآن میں حضرت دائود ؑ کے حوالہ سے اس امر کی نشاندہی کی وہ اپنے دور کی مادی ترقی کے نقیب تھے فرمایا: ’’ ہم نے انہیں جنگی لباس کی ٹیکنالوجی کا علم دیا تاکہ وہ تمہاری ،باہمی لڑائی میں حفاظت کر سکے ( سورہ الانبیاء: ۸۰)اس کی وضاحت دوسری جگہ کی : ’’ہم نے ان کے لئے لوہا نرم کر دیا ( اور ہدایت دی) کہ فراخ و کشادہ زرہیں تیا رکریں اور اس کے حلقے کڑیاں درست انداز سے جوڑیں اور( تم سب ) نیک کام کرو ، میں تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہوں ۔‘‘ ( سورہ سبا : ۱۰ : ۱۱) اسطرح حضرت سلیمان ؑ نے تعمیرات اور ظروف سازی کی صنعت کو ترقی سے ہمکنار کیا ۔