’ٹیلہ جوگیاں تاریخ کے مطابق ٹلّہ انڈیا کے جوگیوں کا مرکز حیات تھا اور پھر تقسیمِ ہند کے بعد ایک ریاست ہندو ہو گئی اور دوسری مسلمان، تو جوگی کیا کرتے؟’وہ ہندو بھی تھے، مسلمان بھی اور سکھ بھی یا شاید سب کچھ تھے۔ تو بس وقت وہیں رک سا گیا اور ٹلّہ پھر آباد نہ ہو پایا اور جوگی دھیرے دھیرے اس ٹیلے کو چھوڑ کر جاتے رہے۔
سابق ڈائریکٹر جنرل آرکیالوجی آف پنجاب ڈاکٹر سیف الرحمان ڈار کے مطابق سنہ 1947 کے بعد ٹلّے پر موجود جوگیوں کا سپورٹ سسٹم ختم ہو گیا،یہاں باقاعدہ سکھوں کی کمیٹی بنی ہوئی تھی جس سے ان جوگیوں کو مالی اور انتظامی مدد ملتی تھی،ریکارڈ کے مطابق 60 فیصد ہندو یا سکھ جوگی تھے جبکہ 40 فیصد مسلمان بھی تھے۔ تقسیم کے بعد جب یہ واضح ہو گیا کہ یہ مسلمان ریاست ہے تو غیر مسلم جوگی یہاں سے رخصت ہو گئے،جوگیوں کا یہ ٹیلہ برصغیر پاک وہند میں مذہبی ہم آہنگی کی بہترین مثال تھا جہاں ہر مذہب کے جوگی آزادی سے اپنی عبادات کر سکتے تھے‘‘یونانی مورخ پلوٹارچ کے مطابق یہ ٹلّہ سکندر اعظم کی آمد کے وقت بھی موجود تھا اور اپنے مضامین میں وہ اسے ’سورج کے لیے مقدس ٹیلا‘ کے نام سے پکارتے ہیں،تخت ہزارے کا رانجھا شکستہ قدموں اور رنجور دل سے پہاڑ کی کٹھن چڑھائی چڑھ رہا ہے۔
اس کی ونجلی (بانسری) کی تانیں فضا میں درد گھول رہی ہیں۔ یہ ہیر سے بچھڑنے کا غم ہے جس میں وہ دنیا تیاگ کر جوگ لینے گرو بال ناتھ کے پاس پہنچتا ہے۔ گرو بال ناتھ اس غم زدہ عاشق کو اپنی محبت کے سائے میں سمیٹ لیتے ہیں اور اس کا کان چھدوا کر، اس میں بالی ڈال کر اسے اپنے قبیلے میں شامل کر لیتے ہیں اور یوں رانجھا ’کن پھٹا‘ جوگی بن جاتا ہے۔ہیر رانجھا کا یہ قصہ آج بھی پنجاب کے لوگوں کو بے قرار رکھتا ہے۔ اگرچہ اس قصے کو بیتے صدیاں گزر گئی ہیں لیکن وہ پہاڑ، جہاں رانجھے نے جوگ لیا، ٹلّہ جوگیاں کا تھا اور جہاں پتھر کا ایک تخت آج بھی رانجھے کے جوگ کی یادگار کے طور موجود ہے۔
جہلم سے تقریباً 20 کلومیٹر فاصلے پر سطح سمندر سے 3200 فٹ کی بلندی پر واقع ’ٹلّہ جوگیاں‘ یا جوگیوں کے ٹیلے کے اجڑے کھنڈرات میں صدیاں سانس لیتی ہیں۔اپنے وقت میں فقیروں کی یہ ایک ایسی کٹیا تھی جہاں سلاطین وقت حاضری بھرتے اور جوگیوں کی سیوا کرتے تاکہ ان کے اقتدار کا سورج تا دیر بلند رہے۔ٹیلے کے اونچے نیچے پتھریلے راستے، شکستہ مندر، بجھے چراغوں کے سیاہ طاقچے، کائی زدہ خشک تالاب، سوکھے پتے، بوڑھے شجر اور ٹیلے پر چاروں جانب گونجتا ہوا سناٹا۔ یہ سب بے زبان خاموشی گواہ ہیں کہ یہاں راجا پورس، سکندر اعظم اور اکبر بادشاہ سے لے کر ہیر کے رانجھے تک، سب نے دھونی رما کر اور تلک لگا کر اس ٹیلے کی رونق بڑھائی تھی۔لیکن آج یہاں دور دور تک ویرانی کا بسرام ہے۔’ٹلّہ جوگیاں، جہاں صدیوں پہلے سورج کی پوجا ہوتی تھی‘ ٹلّہ جوگیاں کی قدامت صدی دو صدی کی نہیں بلکہ کم و بیش تین ہزار سال پر محیط ہے۔ مختلف مورخین اس حوالے سے مختلف شواہد پیش کرتے ہیں مگر اکثریت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ ٹلّہ قبل مسیح بھی آباد تھا۔ٹلّہ جوگیاں بظاہر ایک عام سی عبادت گاہ نظر آتی ہے مگر تاریخ کے گرد آلود صفحات پلٹتے جائیں تو اس ٹیلے سے لپٹی تحریر کی نت نئی داستانیں سامنے آتی چلی جاتی ہیں۔مختلف مورخین اس کی قدامت کی دلیل کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
مثلاً ’پوٹھوہار‘ کے مصنف عزیز ملک لکھتے ہیں کہ قدیم زمانے میں کسی ہندو مہا پرش نے یہاں کوئی عبادت گاہ بنائی تھی اور مہا بھارت کے اختتام پر پانچوں پانڈو بھائی یاترا کرنے یہاں آئے تھے۔صوفی محمدالدین زار ’تذکرہ جہلم‘ میں لکھتے ہیں کہ قدیم زمانے میں یہاں سورج کی پوجا ہوتی تھی اور قدیم مقدس کتاب ’رگ وید‘ کے کچھ منڈل اور منتر بھی یہیں کہیں تخلیق ہوئے۔یونان میں 46 عیسوی میں پیدا ہونے والے مورخ ’پلوٹارچ‘ کے مطابق یہ ٹلّہ سکندر اعظم کی آمد کے وقت بھی موجود تھا اور اپنے مضامین میں وہ اسے ’سورج کے لیے مقدس ٹیلا‘ (Hill Sacred to Sun) کے نام سے پکارتے ہیں۔
معروف مصنف مستنصر حسین تارڑ اپنے ناول ’منطق الطیرجدید‘ کی ابتدا میں لکھتے ہیں کہ برطانوی فوجی افسر اور ماہر آثار قدیمہ الیگزانڈر کنگہم نے اپنی کتاب ’ہندوستان کا قدیم جغرافیہ‘ میں اس ٹیلے کے حوالے سے ایک عجیب داستان کا حوالہ دیا ہے جسے یونانی تاریخ داں پلوٹارچ نے اپنی تاریخ میں رقم کیا تھا۔الیگزانڈر کننگھم نے اپنی کتاب میں لکھا کہ پلوٹارچ کے مطابق 326 قبل مسیح میں جب راجا پورس سکندرِ اعظم کے ساتھ مقابلے کی تیاریاں کر رہے تھے تو ان کا ہاتھی سورج کی مقدس پہاڑی پر چڑھ گیا اور انسان کی آواز میں پورس سے درخواست کی کہ وہ سکندر کے مقابلے پر نہ اُتریں۔بعد ازاں اس پہاڑی کو ’ہاتھی کی پہاڑی‘ کے نام سے بھی پکارا جانے لگا۔مستنصر حسین تارڑ صاحب اپنے سفر نامے ’جوکالیاں‘ میں لکھتے ہیں کہ سکندر اعظم کے تاریخ داں نے ٹلّہ جوگیاں کے پہاڑ کو ’ایلی فینٹ ما?نٹین‘ پکارا ہے اور جب وہ خود ٹلّہ جوگیاں کی جانب آ رہے تھے تو واقعی دور سے اس پہاڑ کی شکل پر ایک ہاتھی کا شائبہ ہوتا تھا۔
جہلم پر لکھی انجم سلطان شہباز کی کتاب ’تاریخ جہلم‘ کے مطابق ٹلّہ جوگیاں کو ماضی میں ’کوہ بال ناتھ‘ بھی کہا جاتا تھا۔’ٹلہ جوگیاں جس سے تاریخ کے بڑے بڑے نام جڑے ہیں‘ٹلّہ جوگیاں تاریخ، مذہب اور روایات کی دھند میں لپٹا ایک ایسا تحیرانگیز مقام ہے جس کی شکستہ دیواروں کے طاقچوں میں صدیوں پرانے بجھے چراغوں کی سیاہی دراصل وقت کے صفحات پر لکھی ہزاروں سال کی تاریخ کی انمٹ روشنائی ہے۔یہاں کے مندر، سمادھی، تالاب اور گھنے اشجار سبھی سے تاریخ کے بڑے نام جڑے ہیں۔بابا گرو نانک، گرو گورکھ ناتھ، گرو بال ناتھ، راجا سلواہن، راجا بھرت ہری، سکندر اعظم، مغل بادشاہ جلال الدین اکبر، نورالدین جہانگیر، غرض کہ ہر عہد کے سلاطین اور ہر مذہب کے پیشواؤں نے یہاں حاضری دی ہے،تاریخ میں یہ ٹلّہ دو بڑے ناموں سے مشہور ہوا، گرو گورکھ ناتھ اور صدیوں بعد گرو بال ناتھ ۔
کہتے ہیں کہ گرو گورکھ ناتھ نے اجین کے راجا بکرماجیت اور سیالکوٹ کے راجا سلواہن کے عہد میں یہاں ڈیرا لگایا اور مہا یوگی شیو دیوتا کی پوجا کو رواج دیا اور ناتھ پنتھ قائم کیا،راجا بھرت ہری، پورن بھگت اور راجا رسالو جیسی شخصیات کا تعلق گرو گورکھ ناتھ کے دور سے ہی ہے۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ ٹلّہ جوگیاں پر اس قدیم خانقاہ کی بنیاد ’کن پھٹے‘ جوگیوں کے سلسلے کے بانی گرو گورکھ ناتھ نے ایک صدی قبل مسیح رکھی تھی۔یہ ٹلّہ تقریباً دو ہزار سال آباد رہا۔ گرو بال ناتھ کا زمانہ شاید 15ویں صدی عیسوی رہا ہو گا کیونکہ ٹلّے اور رانجھے کے جوگ کا ذکر پنجابی نظم ہیر رانجھا میں بھی ملتا ہے،رانجھا ہیر کے پیار میں ناکام ہو کر ٹوٹے دل کے ساتھ یہاں آیا اور اپنے کان چھدوا کر جوگی بال ناتھ کا چیلا بن گیا تھا۔ٹلہ جوگیاں سے منسوب کہانیاںاس ٹلّے سے وابستہ سب سے مشہور قصہ رانجھا کا ہے۔ ٹلّے پر موجودہ ریسٹ ہاؤس کے ڈھلوانی راستے کے آخری موڑ پر پتھر کی وہ سِل آج بھی موجود ہے جہاں پر رانجھے نے ہیر کے عشق میں اپنے کان چھِدوائے اور جوگ لیا۔گرو بال ناتھ نے اس غم کے مارے کے بدن پر راکھ ملی اور کان میں مندرے ڈال کر اپنا چیلا بنا لیا مگر عشق کی آگ نے رانجھے کو یہاں بھی ٹکنے نہ دیا اور وہ جوگی بن کر بھی ہیر کی تلاش میں سرگرداں رہا۔اس ٹلّے سے وابستہ ایک دلچسپ داستان پورن بھگت کی بھی ہے۔