اے مسلمانو!
تم نے اس دنیائے فانی سے دل لگا لیا ہے اور سمجھتے ہو کہ اگر ہم نے سچ اُگل دیا یا حق کا ساتھ دیا تو حکومت ناراض ہو جائے گی، ہمارے جبری آقا ہم سے سخت خفا ہو جائیں گے اور ہمارا ناقابلِ تلافی مالی نقصان ہو جائے گا اور اگر ہم خدا کی بجائے اربابِ اقتدار کے احکامات کی اطاعت کریں گے تو ہمیں دولت اور عزت نصیب ہوگی۔ ہم ترقی یافتہ ملک کہلائیں گے۔
اے بھولے بھالے پاکستانیو! یہ سب تمہاری خام خیالی ہے۔ تم غلط طور پر نفع اور نقصان کے فریب میں مبتلا ہوگئے ہو۔ ارے نادانو! یاد رکھو نہ اس دنیا کی کوئی اصلیت ہے اور نہ اس کا سود و زیاں کوئی حقیقت رکھتا ہے یہ سب فانی چیزیں ہیں کیوں کہ بندہ مومن کے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی معبود ہے، نہ مقصود، نہ مطلوب، نہ ہی کوئی مسجود ہوتا ہے۔ مسلمان صرف ایک اللہ سے ڈرتا ہے اس پر کامل یقین رکھتے ہوئے باطل سے بے تیغ و سناں بھی لڑ جاتا ہے۔ مگر جب عقیدہ ہی کمزور ہو تو انسان باطل کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔
بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ اتحاد و اتفاق میں برکت ہے۔ مگر بطورِ امت مسلمہ ہم ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم نہ نظریاتی طور پر ایک ہیں نہ روحانی طور پر۔ ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں مگر ہم کرہ ارض پر ایک اکیلے تن تنہا، بے یار و مددگار کھڑے ہیں۔ ہم جو شیر تھے کہ زمانہ ہماری دھاڑ سے گونجا کرتا تھا آہ آج ہم پر گلی کے آوارہ کتے بھی بھونکتے ہیں۔
کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔ہم پاکستانی جب بھی ایٹمی دھماکہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں فوراً سے پیشترایوان بالا میں فون آجاتا ہے۔ ”پہلے ہمارا قرضہ تو چکا دو پھر کرتے رہنا ہم پر بم دھماکہ۔”
پاکستانی فوج دنیائے عالم کی سب سے زبردست فوج ہے۔ پاک فوج کے جری بہادر جوان بارڈرز پر پہرہ دیتے ہیں آئے روز دشمن کی اندھی گولی کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ انڈیا کی اجارہ داری، امریکہ کی ڈھکوسلے بازی اور اسرائیل کے عیارانہ حربوں کا ہر مرتبہ پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا ہے۔ مگر دشمنوں کی سینہ زوری دیکھیے کہ باوجود منہ کی کھانے کے پھر بھی وہ سب متحد ہو کر ہر زاویے سے پاکستان کو چاروں شانے چت کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ دنیا چڑھتے سورج کی پجاری ہے جس کے پاس پیسہ اور طاقت ہے وہ کامیاب ہے۔
بفضل تعالیٰ پاکستان بلاشبہ ایک ایٹمی طاقت ہے مگر ہمارے بچے بچے کا بال بال قرض میں ایسا جکڑ دیا گیا ہے کہ ہم جب بھی دشمنوں کے خلاف کوئی انتہائی قدم اٹھانا چاہتے ہیں تو فوراً ہمیں باور کرایا جاتا ہے کہ ہم ان کے مقروض ہیں، منگتے ہیں۔
ان کا دیا کھا پی کر، پہن اوڑھ کر نمک حلالی کا حق ادا کرنے پر ایسا مجبور کر دیے گئے کہ ہمارا سارا جوش و جذبہ صابن کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے ہاں ہمیں بس دن منانے کے قابل چھوڑا گیا ہے صاحب! ہم نے اپنے محسن ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ کیسا ناروا سلوک کیا۔ عظیم سائنسدان کی محنت، کاوش اور احسان کے بدلے میں ہم نے اپنے محسن کو دھتکار دیا۔ کیا ہم احسان فراموش قوم واقعی یوم تکبیر منانے کے لائق ہیں؟ ہم جو آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ ہمیں تو آپسی اختلافات سے ہی فرصت نہیں غیروں کا کیا گلہ کریں۔ ہم کیسی ایٹمی طاقت ہیں کہ چاہ کر بھی اپنا دفاع نہیں کر سکتے، ہمارا دشمن ہماری آنکھوں کے سامنے ہماری ہنسی اڑاتا دندناتا پھرتا ہے۔
مزہ تو جب ہو کہ ہم آپس کے تمام اختلافات بھلا کر ایک قالب میں ڈھل جائیں۔ دشمن کو اپنی سرحدوں سے نکال باہر کریں۔ ہر عیارانہ چال،شاطرانہ حربوں کو ناکام بنا دیں اور اگر کسی نے بھی ہماری طرف بری نگاہ ڈالی تو کر ڈالیں پھر ایک بم دھماکہ اور خاک آلود کر دیں دشمنوں کے چہروں کو۔
الحمدللہ ہم امت محمدیہ کے جوشیلے نڈر امتی ہیں، ہم وہ شیر ہیں جو دھاڑنا بھول گیا ہے ورنہ آج بھی ہم لگا دیں نا ایک فلک شگاف نعرہ تکبیر اللّٰہ اکبر تو خدا کی قسم دشمن کے پاجامے گیلے ہو جائیں۔ بم دھماکہ کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔
الحمدللہ ہم پاکستان کو ترنوالہ سمجھنے والے بھارت کے حلق سے اس کی زبان کھینچ لینے کی جرات رکھتے ہیں۔ دشمن جس کو آنکھ مچولی کا کھیل سمجھ رہا ہے وہ اس کی زمین پہ طلوع ہونے والے سورج کی روشنی کو تاریکیوں میں بدل دے گا۔ انشاءاللہ
اب وقت آگیا ہے کہ ببانگِ دہل دشمنوں کو بتایا جائے کہ آج بھی ہمارے اندر وہی 65ء کا جذبہ موجود ہے۔ انڈیا کو سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان سے کوئی کبھی بھی جنگ نہیں جیت سکتا۔ پاکستان جنگ نہیں چاہتا کیونکہ اس کے لوگ جس دین اسلام کے پیروکار ہیں وہ امن اور سلامتی کا مذہب ہے لیکن جب جنگ مسلط کر دی جائے تو سرتوڑ جوابی کارروائی ہم پر لازم ہے۔
ہمارے عسکری فضائیہ جانباز ہوں، میدانی نڈر سپاہی ہوں یا بحری فوجی جوان انہوں نے لاالہ الااللہ کی جو زرہ بکتر پہن رکھی ہے اسے دشمن کسی طور نہیں توڑ سکتا، باطل کی مکاری کے سامنے افواج پاکستان اور عوام سیسہ پلائی دیوار ہیں۔
نعرہ تکبیر اللہ اکبر
پاکستان زندہ باد
ڈاکٹر عبد القدیر خان پائندہ باد