وطن عزیز میں شائد ہی کوئی ایسا مسلمان ہو جو اسرائیل کی بربادی کا خواہشمند نہ ہو،ہر پاکستانی یہ چاہتا ہے کہ اسرائیل ناکام ہوجائے، اس کا ککھ نہ رہے یعنی وہ اس قابل نہ رہے کہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کرسکے، اس پر غربت، بھوک، افلاس کے سائے ہوں، اگر ایسا ممکن نہ ہوکہ اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ جائے تو کم ازکم اتنا تو ہوجائے کہ وہ کسی مسلمان ملک بالخصوص فلسطینی مسلمانوں پر حملہ کرنے سے پہلے ایک بار نہیں ایک ہزار بار سوچے، موجودہ حالات میں پاکستانیوں اور تمام دنیا کے مسلمانوں کی اس خواہش کو عملی جامہ اسی صورت میں پہنایا جاسکتا ہے اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے، جی ہاں آپ کو شائد یقین نہ آئے کہ اگر پاکستان اسرائیل کو ایک مخصوص ذہنیت یعنی اسرائیل کی بربادی کی نیت سے تسلیم کرےتو ایسا ممکن ہے، مگر کیسے، آئیے دیکھتے ہیں۔
فرض کریں پاکستان اسرائیل کوتسلیم کرلیتا ہے اور پھر اسکے بعد تعلقات کو اس سطح تک لے جائے کہ ہمارے سیاستدان مسلم امہ کے وسیع تر مفاد میں اسرائیلی سیاستدانوں کو اپنے جیسا بنانے کی کوشش کریں ، انہیں کرپشن کی لت ڈالی جائے ، انہیں لندن، امریکہ، یورپ، سعودی عرب میں جائیدادیں بنانے کے فوائد بتا کرقائل کیا جائے کہ وہ بھی ایسا کریں ، انہیں یہ یقین دلایا جائے کہ اپنا ملک تو قبرستان ہوتا ہے یعنی رہنے اور علاج کے لیے امریکہ اور لندن جبکہ اپناملک صرف اور صرف حکمرانی کے لیے یا پھر دفن ہونے کے لیے ہوتا ہے ، انہیں اقاموں ،مرضی کے ججوں، میڈیاہاؤسز کو خریدنے کے فوائد سے آشنا کروایاجائے، انہیں بتایا جائے کےکیسے موچی ،نائی ، درزی اور فالودے والے کے اکاونٹ میں پیسے رکھے جاتے ہیں الغرض ہمارے سیاستدان انہیں ہوبہواپنے جیسا بنادیں۔
ہمارے بیورکریٹ(یاد رہے کہ یہاں پر کرپٹ بیوروکریسی کا ذکر ہے ) ان کی بیوروکریسی کو اس قابل بنادیں کہ وہ سرکاری ملازمت کے دوران ہی کینیڈا اور دیگر یورپی ممالک کی شہریت حاصل کرلیں ، انہیں یہ باور کروایا جائےکہ دوران ملازمت ریاست نہیں سیاست کا وفادار ہونا ہی کامیابی کا راز ہے، انہیں دوران الیکشن متوقع حکومتی پارٹی کی خاطر ہرقسم کی حدود کو پارکرنے کے فوائد، معمولی تنخواہ میں غیر معمولی آمدن کا حصول، غیر معمولی جائیدادیں بنانے کے طریقوں سے آشنا کروایاجائے اور قائل کیا جائے کہ یہی سب کچھ ہے۔
ہمارے کرپٹ علما ان کے علما کو مذہب کو بطور آڑ، اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کے طریقے ، ہمارے تاجر ان کے تاجروں میں ملاوٹ، چوربازاری، ٹیکس چوری، ہڑتالوں، رشوت دینے جیسی صفات پیدا کریں۔ الغرض ہرشعبہ محنت کرے اورانہیں اپنے جیسا بنادے، اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ہمیں اسرئیل کو جنگ سے روکنے کے لیے جلوس، ریلیوں، قراردادوں، مذمتی بیان، اوآئی سی کے اجلاس، اقوام متحدہ کی مداخلت، مسلم امہ کے باآثر ممالک کے اثرو رسوخ اور امریکی زبانی کلامی مذمتی بیان کی ضرورت نہیں رہے گی، کیونکہ اسرائیل اول تو اس قابل ہی نہیں رہے گا کہ وہ جنگ کرسکے۔
بات معمولی سرحدی جھڑپوں تک ہی محدود رہے گی اور اگر اس نے جنگ کرنےکی غلطی کربھی لی تو وہ ہرگز یہ نہیں کہے گا کہ جب تک ضرورت ہوگی بمباری جاری رہے گی، بلکہ چند دن کے بعد وہ خود ہی دنیا کی طرف دیکھ رہا ہوگاکہ کوئی اسے جنگ بند کرنے کے لیے کہے اور اگر کسی نے ایسا نہ کہا تو وہ خود ہی واشنگٹن کے قدموں میں جاگرے گاکہ جنگ بند کروائی جائے اور میدان کی جیتی ہوئی بازی میز پر ہار جائے گا۔ لیکن اس کے لیے ہم سب کو وسیع القلبی کا مظاہر ہ کرنا ہوگا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد اسے ایک کرپٹ، قرضوں میں ڈوبا ہوا، آئی ایم ایف ، امریکہ ، سعودیہ کی شرائط کے تحت چلتاہو ملک بنا نا ہوگا، بصورت دیگر اسرئیلی جارحیت جاری رہے گی اور ہم وہاں سے آنے والی دلخراش ویڈیوز کو دیکھ کر ابابیلوں کا انتظار کرتے رہیں گے، مگر ابابیل نہیں آئیں گے اور اگر ابابیل آبھی گئے تو بقول اردگان وہ اسرائیل کی بجائے ہم پر کنکر برسائیں گے۔