اللہ نے انسان کو عقل و شعور سے نوازا اور ایک ایسے نظام کو قائم کرنے کی طاقت دی جہاں اس کے ہم جنس کے علاوہ دیگر چرند پرند بھی اس نظام کا حصہ بن سکیں۔ انسان عقل و شعور رکھنے والی وہ مخلوق ہے جس کو اللہ تعالی نے دنیا کے نظام کو سنبھالنے کی صلاحیت دی۔ ان صلاحیتوں کا براہراست تعلق انسانی دماغ سے ہوتا ہے۔انسانی دماغ میں بلین کے قریب خلیات ہیں اور ہر شخص میں ان بلین خلیات کا کچھ حصہ کام کرتا ہے۔ ان خلیات کی اقسام ہر شخص میں الگ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان علیحدہ عادات، نفسیات اور فطرت کا مالک ہوتا ہے۔
انسانی نفسیات کا انحصار اس کے اردگرد ماحول پر منحصر کرتا ہے۔ اس کا رویہ اس بات کی گواہی ہوتی ہے کہ وہ کس قسم کے اب و ہوا میں سانس لیتا ہے، اس کے اس پاس کے بسنے والے افراد کس خصائل کے حامی ہیں اور اسے جن مسائل کا سامنا ہے وہ کس نوعیت کے ہیں۔
درحقیقت روزمرہ کی زندگی میں ہماری چھوٹی چھوٹی چیزیں یا انتخاب بھی ہمارے مزاج پر اندازوں سے زیادہ اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 50 فیصد امریکی شہریوں کو معتدل تناﺅکا سامنا ہے (اس حوالے سے پاکستانی شہری بھی کسی سے پیچھے نہیں ہوں گے مگر اس حوالے سے کوئی باضابطہ اعدادوشمار نہیں)۔ہر ایک کے لیے تناﺅمختلف ہوسکتا ہے، ہوسکتا ہے کہ جو چیز آپ کو تناﺅکا شکار کرے وہ آپ کے دوست کے لیے کچھ بھی نہ ہو۔محقق کے مطابق کویڈ 19 سے قبل دنیا کے ۴ فیصد آبادی ذہنی امراض میں مبتلا تھی جوکہ موجودہ حالات کے مدنظر کافی کم ہے۔
ڈپریشن سے کیا مراد ہے؟
عام اصطلاح میں ذہنی تناﺅ کو ڈپریشن کا نام دیا جاتا ہے۔ ڈپریشن وہ علامت ہے جو کسی خاص طبقے یا عمر کے لوگوں کے لیے مختص نہیں بلکہ عام حالات و واقعات میں پیدا ہونے والی مسائل اور الجھنوں سے انسان کے مزاج میں جو بوجھ پڑتا ہے اس کو ڈپریشن کہتے ہیں۔ یہ الجھن یا طبیعت کی گرانی اگر مختصر عرصے کے لیے لاحق ہو تو فکر کی بات نہیں بلکہ انسانی زندگی کی مشق کی علامت ہے لیکن یہ مرض یا کیفیت مستقل حاوی رہے تو انسانی نفسیات کو متاثر کرتی ہے۔
ڈپریشن کی علامات:
ڈپریشن کی علامات میں بے چینی اور طبیعت میں گرانی کا شکار ہونا،بغیر کسی وجہ کے غصہ کا آنا اور چڑچڑاپن کا ہونا،نیند کا نہ آنا یا نیند کی کمی یا بے خوابی کا شکار ہونایا حد سے زیادہ سونا بھی ڈپریشن کی علامات مھے شامل بتائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھوک کا نہ لگنا یا بہت زیادہ کھانے کی طلب ہونا،خود کو سب سے الگ اور تنہا کر لینا،خود کو غیر محفوظ سمجھنا، خوف وہراس اور شک میں مبتلا رہنا،طبیعت کا بوجھل اور گرا گرا رہنا علامات کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ ضد یا کسی بات پر بے جااسرار ذہنی و دماغی کی الجھن کو واضع کرتی ہیں جو نفسیاتی مسائل کی نشانی ہے۔ کوئی بھی ایسا رویہ جو اضطرابی و بے چینی کے سبب رونما ہو نفسیاتی بیماری کی ابتدائی شکل ہے جو کہ انسانی جسم میں موجود کیمیائی رطوبت (ہارمونز) کی تبدیلی کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔
یہ کیمیائی بدلاﺅ تمام عمر کے افراد میں ہوتی ہے خاص طور سے نوجوانوں میں جو بعض اوقات اتنی شدت اختیار کر جاتی ہے خودکشی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ یہ جذباتی اتراﺅ چڑھاﺅ دراصل انسانی رویوں اوراس کے ردعمل کو ظاہر کرتا ہے ۔اگر ان رطوبات کا تناسب برقرار نہ رہے تو ذہنی و دماغی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے جس میں جسمانی و ذہنی تھکاوٹ ہونا یا دماغ کا ماعوف رہنا شامل ہے جو کہ قوت ارادی کو معطل کرکے منفی ردعمل کا باعث بن جاتا ہے اور انسان میں انتشار اور غصے میں خودکشی کو واحد حل تور کرتا ہے جو کہ ذہنی تناﺅ کا انتہائی درجہ ہے۔
ڈبلیو ایچ او ک مطابق مرد و عورت میں اموات کی وجوہات میں شامل خودکشی سے ہونے والی اموات کی شرح قابل فکر بات ہے۔ ذیل میں دیئے گیے چارٹ کی مدد سے ہم اموات کی شرح بخوبی جان سکتے ہیں:
ڈپریشن کی وجوہات:
علم نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوسکتی۔ مالی مسائل، تعلیمی مشکلات، خاندانی الجھنیں یا دیگر وجوہات کسی بھی مرد یا خاتون کو ڈپریشن میں مبتلا کر سکتی ہیں جو کہ آگے جا کر انہیں خودکشی کرنے تک مجبور کردیتی ہیں۔ایک وجہ والدین کے آپس میں تعلقات بھی ہو سکتے ہیں یعنی اگر کسی بچے کے والدین آپس میں لڑتے ہیں یا وہ اپنے بچوں پر سختی اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہوں گے تو یہ بھی انہیں (بچوں کو)مستقبل میں نفسیاتی مسائل کی طرف لے جا سکتا ہیں۔
ماہرین کے مطابق ڈپریشن کا تعلق کسی خاص جنس سے نہیں ہے۔ نفسیاتی مسائل کی بہت سی اقسام ہوتی ہیں، یہ کسی بھی عمر سے تعلق رکھنے والے فرد کو ہو سکتی ہے، اگر کوئی شخص ڈپریشن کا شکار ہے تو وہ بہت تنہا محسوس کرے گا اور بے چینی یا اضطراب کی کیفیت میں اسے دورے پڑ سکتے ہیں۔
نفسیاتی مسائل کا تعلق رہن سہن اور بنیادی ضروریات کی عدم دستیابی کی وجہ سے بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ بہتر طرز زندگی انسان کے کردار سازی میں اہم ثابت ہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میںٹھہراﺅ اور بردباری پیدا کرتی ہے۔ اس کو پر اعتماد بناتی ہے اور معاشرتی و مالی مسائل کو حل کرنے میں مدد کرتی ہے۔ جبکہ جو لوگ ان ضروریات سے محروم رہتے ہیں ان میں جلن ، حسد اور دوسروں پر ناجائزتنقید کرنے جیسے نفسیاتی امراض پیدا ہوجاتے ہیں جو کہ پاگل پن اورخودکشی جیسے کیفیت کو جنم دیتے ہیں۔