موجودہ دور جدید میں کسی عام شہ کو بھی خاص بنانا مشکل نہیں، کسی بھی سادہ سے صفحہ پر آپ اس میں زندگی کے رنگ بھر سکتے ہیں اس قدر جدید دور کے باوجود جہالت کا خاتمہ ہم انسانوں کے زندگی سے نہیں کرسکے ہیں۔
جہالت بہت طرح کی ہوتی ہے، ایک وہ انسان جس نے زندگی میں کبھی علم کی تصور کو اپنی زندگی میں قلمبند نہ کرسکا ہو، دوسرا وہ انسان جس نے تعلیم پورے لحاظ سے حاصل کی ہے مگر اس نے تعلیم کو بھی کٹھڑے میں لاکر کھڑا کر دیا ہے مثال کے طور پر کچھ ایسے اشخاص کا علم حاصل کر لینا جو کسی بھی علم کو علم نہیں سمجھتا بلکے اس کی سند/ڈگری کس معیار کی ہیں اس اعتبار سے دوسرے انسان کی قابلیت کو پرکھتا ہے۔
اس دور میں بہت سے ایسے جاہلوں نے علم حاصل کر لیا ہے جو سائنس کی لی گئی ڈگری کو اہم سمجھتے ہیں اور آرٹس کی ڈگری کو کسی بھی اعتبار سے اہم نہیں جانتے، میں یہ بات سو فیصد اس لحاظ سے کہہ سکتی ہو کیونکہ مجھے پے در پے ایسے بہت سے لوگوں سے سامنا ہوتا رہتا ہے۔
جبکہ اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم حاصل کرنے کو کہاں نہ ہی اس میں ڈگری کا ذکر ہے اور نہ ہی کسی خاص علم کی طرف اشارہ کیا”علم حاصل کرو چاہے اس کے لیے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے” اگر ہم ذہن پر زور دے تو یہاں زیادہ زیادہ علم حاصل کرنے کی بات کی جارہی ہیں نہ کہ کسی خاص علم کی طرف اشارہ ہو رہا ہے۔
اللہ اور نبی نے علم حاصل کرنے کو ہی ہمیں اس لیے کہاں تاکہ ہم شعور کی آگاہی سے واقف ہوسکے نہ کہ ہم کوئی بھی ڈگری لیکر اس کے بھی شاخیں بناڈالے یہ انسان کی کیا اہمیت ہے اور فلا ڈگری رکھنے والے کی کیا؟
علم تو خود ایسے سرزمین کے مانند ہے جس میں عقل کی پودے کا بیچ لگایا جائے، اور بیج زمیں کے باہر تنا درخت بن کر سامنے آئے، مگر یہ بات بہت افسوس سے بھی بلاتر لگنے لگی ہے ڈگری کے اعتبار سے انسان کی شناخت بروئے کار لائے جائیں، حالانکہ کہ علم تو مسلسل سیکھنے کا عمل ہے اس میں ڈگری ایک معاشرے کے اعتبار سے لیے جانے کے باوجود حاصل امر رہتا ہے ہیں، لیکن یہ ساری باتیں اعلی سوچ کے ذہن کے رکھنے والے ہیں ایسا سوچ سکتے ہیں، ورنہ باقی سب مہنگی سے مہنگی ڈگری ہاتھ میں آجانے کے بعد ابلیس کے چنگے میں پھنسے ہوئے ہیں،ایسے میں ہمیں چاہیے کہ تعلیم کو عام کریں نہ کہ ڈگری کے معیار کو اورلوگوں کے ذہنی سطح کو جانچے۔