گزرتے وقت میں جہاں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں اور لوگوں کی ترجیحات و روزوشب تبدیل ہوگئے ہیں کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے وہیں اس بڑھتی مہنگائی میں متوسط طبقہ کی عورت نے بھی اپنے اوپر لگانے والے پیسہ میں از حد کمی کی ہے۔
ایسی ہی ایک کہانی ایک عورت کی ہے جس نے بیوٹی پارلر تک جانا چھوڑ دیا۔ لیکن قریب آتی عید پر اسے بھی کچھ بننے سنورنے کا شوق ہوا لہذا اس نے گھر میں ہی کچھ چیزوں کو اپنے اوپر لگانے کے بعد بھاپ لینے کی کوشش کی کہ کھلتے مساج بند ہو سکیں اور اسے کچھ اپنے اندر بہتری محسوس ہو۔
اور جب اس نے پانی گرم کیا اور گرم پانی والے پیالے کے قریب تولیہ رکھ کر بیٹھی تو اسے بھاپ لینا انتہائی مشکل لگاکہ کہاں وہ بیوٹی پارلر میں اس اسٹیم لینے مشین کی عادی تھی جو کہ دور رکھی ہوتی اور ہلکی ہلکی اس سے گرم ہوا آتی اور کہاں یہ تولیہ لپیٹ کر گرم پانی کے قریب منہ کو دینا۔
دونوں میں بے حد فرق تھا۔اسے لگا تھا اس گرم پانی کے قریب منہ دے کر کہ جیسے اس کی سانس نہ آرہی ہو۔بھاپ اڑ رہی تھی۔اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔گرم گرم بھاپ اس کے چہرے پر لگ رہی تھی اور اسے پسینے آگئے تھے۔اس نے جلدی سے قریب رکھے ٹشو پیپر کو لیا اور اپنے چہرے کو رگڑنے لگی۔مشکل سے ایک منٹ ہی گزرا ہوگا اب کہ اس نے تولیہ کو ہٹایا اور باہر منہ نکال کر سانس لینے لگی۔
اسے اس وقت یہ گرم پانی کے قریب چہرے کو لے جانا انتہائی مشکل کام لگ رہا تھا۔کہ یکا یک اسے جہنم کا خیال آیا کہ ہاں آج ہی تو امام صاحب نے نماز میں بھی “زقوم”والی آیات تلاوت کی تھیں۔اب وہ اسی خیال میں تھی۔اور وہ دعا مانگ رہی تھی کہ “یا اللہ جہنم کی آگ سے بچا دینا”کہ یہ کھولتے پانی میں سے نکلتی بھاپ تو اسے برداشت نہ ہورہی تھی ۔وہ لمحوں کے لیے گرم پانی کے قریب منہ لے جاتی تھی اور پھر اس لی زبان پر تھا “یارب جہنم کی آگ سے بچا لیجۓ گا کہ ہاں وہ تو صرف بھاپ بھی نہ ہوگی بلکہ کھولتا گرم پانی اور اس سے آگے وہ مزید کچھ نہ سوچ رہی تھی۔کہ ہاں صرف اس بھاپ لینے نے ہی اس سے کافی دعائیں کرا لی تھیں۔