گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو لیکر مختلف قسم کی خبریں گردش کر تی رہی ہیں اور لگ یہ رہا ہے کہ ایسا ماحول بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ سعودی عرب پاکستان سے دیرنہ تعلقات ختم ہی نا کردے یا پھر قطر یا ایران کی جیسی نوبت نا آجائے۔ جہاں اسکی ایک وجہ مسلم دنیا پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے بڑھتا ہوا دبائو سمجھا جاسکتا تھاجیسا کہ دیگر کئی عرب ریاستوں نے ایسا کیا جبکہ پاکستان واضح طور پر بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہتا ہے کہ پاکستان اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا ہے اور بار بار ”بین الاقوامی سطح پر متفق پیرامیٹرز” پر مبنی آزاد فلسطینی ریاست اور القدس الشریف کے ساتھ 1967 سے قبل کی سرحدوں کو اپنا دارالحکومت بنانے کا مطالبہ کرتا رہا ہے،یہ واحد قابل قبول حل ہے جو مغربی ایشیاء میں پائیدار امن کی ضمانت دے گا۔ سعودی عرب نے پاکستان کے معاشی حالات کی بہتری میں اپنا کردار ہمیشہ ادا کیا ہے اورپاکستان کی افواج نے سعودیہ کی پہلی دفاعی لکیر کیلئے ہمیشہ اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ حالیہ دورے سے قبل آرمی چیف جناب جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب سعودیہ کے دورے پر موجود تھے اور حالات کی سازگاری کی مرہون منت وزیر اعظم بھی وہا ں پہنچ گئے۔
موجودہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کے منصب سنبھالنے پر بھی بھرپور مالی تعاون کی ناصرف یقین دہانی کروائی بلکہ عملی تعاون بھی کیا ۔ لیکن اس دفعہ اس مالی تعاون کے بدلے پاکستان سے کچھ مختلف کرنے کی توقع کی جارہی تھی جس پر سے پردہ اسوقت اٹھا جب وزیراعظم صاحب نے سعودی عرب کے مالی تعاون کے لئے دی گئی رقم انہیں بہت ہی قلیل وقت میں تقریباً لوٹا دی تھی۔ امریکہ میں اقتدار کی منتقلی کا وقت تھا اور یہ تبدیلی امریکہ میں نئے دن کا آغاز سمجھی جا رہی تھی اور تقریباً ایسا ہواجس کی وجہ سے پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا وہ دبائو جس کی توقع کی جارہی تھی نہیں ڈالا گیا ۔ یہاں ایک سوا لاور بھی پیدا ہوتا ہے کے کیا عمران خان صاحب کی شخصیت کا سحر سر چڑھ کا بول رہا ہے جس کی وجہ سے دبائو کی نوعیت کوئی خاص دیکھائی نہیں دے رہی ہاں البتہ اندرونی سازشی ٹولے کا دبائو بیرونی دبائو سے کہیں زیادہ محسوس کیا جارہا ہے کیونکہ گھر کے لوگوں سے دشمنوں کی طرح برتائو نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر ہمیں یاد ہوکہ محمدبن سلمان اور عمران خان صاحبان کی آخری ملاقات میں ہونے والی گفتگو میں محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ میں سعودیہ میں پاکستان کا سفیر بن کر کردار نبہائونگاجو کہ سفارتی تعلقات کی پائداری اور استحکام کیلئے کافی سمجھا جارہا تھا لیکن درپردہ حقائق وقت کے گزرنے کے بعد سامنے آنا شروع ہوئے ۔
وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی بصیرت کو ہمیشہ سے ہی تنقید کا سامنا رہا ہے ، جس کی بڑی وجہ انکا صاف گوئی رویہ سمجھا جاتا ہے وہ عمومی سیاست دانوں کی طرح لگی لپٹی کرنے کے عادی نہیں دیکھائی دے رہے ساتھ ہی ایک بہترین پیشہ ور کے طور پر وزیر اعظم کے دفتر کی ذمہ داریاں نبہا رہے ہیں۔ یہی وجہ تھی کے سعودی اور پاکستانی تعلقات میں بڑھتی خلیج کو پاٹنے کا جیسے ہی موقع میسر آیا تو وزیر اعظم نے آگے بڑھتے ہوئے خیر سگالی کے طور پر سعودی عرب کا دورہ کر لیا ہے ۔ اس دورے کے دوران ہی سانحہ مسجد اقصی رونما ہوگیا ۔ جب مسجد اقصی میں دورانِ تراویح یہودی فوجیوں نے جوتوں سمیت داخل ہوکر آنسوگیس اور دستی بم نہتے نمازیوں پر پھینکے اور مسجد کو میدان جنگ بنانے کی کوشش کی ، اس سانحہ کی طرف ذرائع ابلاغ نے تو توجہ دلائی ہوگی لیکن یقین ہے کہ عمران خان صاحب نے بھی سعودی ارباب اختیار کی توجہ بھی اس جانب مبذول کروانے کی کوشش کی ہوگی کے ہم کس طرح سے اپنے بھائیوں کے خون کا سودا کرلیں۔ اسرائیل کا یہ اشتعال انگیز اقدام دیکھانا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک کیلئے کیا پیغام ہے ؟۔ یہ دورہ حسب معمول ایک بار پھر معاشی بہتری کیلئے کچھ نا کچھ ضرور ساتھ لائے گا ۔لیکن کیا یہ دورہ پاکستان خطے میں اپنی خودی اور حقیقت کو تسلیم کروانے میں کامیاب ثابت ہوا ہے یا نہیں اس کے نتائج ابھی آنا باقی ہیں۔
اس دورے کہ دوسرے پہلوپر بھی نظر ڈالتے ہیں،رمضان میں حرمین کی زیارت تقریباً ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے ، ہر مسلمان چاہتا ہے کہ رمضان کا مہینہ ہو اور وہ حرمین میں سحر و افطار کر تا رہے سونے پر سوہاگا طاق راتیں یعنی لیلا التقدربھی میسر آجائیں۔ یہ دورہ کسی بھی طور سے یک طرفہ مفاد کیلئے نہیں ہوسکتا ، بہت ممکن ہے کہ اگر رمضان نہیں ہوتے تو ولی عہد محمد بن سلمان خود دورے پر تشریف لے آتے۔ غالب گمان ہے کہ سعودی عرب کے سوچ بچار کرنے والوں حکمت عملی مرتب کرنے والوں نے پاکستان کی موجودہ اہمیت کو صاحب اقتدار کے سامنے رکھا ہوگا جس پر تعلقات کو ازسر نو تشکیل دینے کی کوشش کی گئی ہوگی۔ معاشی طور پر پاکستان کو ہمیشہ سعودی عرب کی ضرورت رہتی ہے لیکن دیگر حفاظتی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان سعودی عرب کا بہتری ساتھی رہاہے ۔ بدلتی ہوئی دنیا میں پاکستان اپنے پاکستانی موقف کی بنیاد پر اور قیادت میں بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے کی موجودگی دنیا میں مثبت تاثر کا باعث بن رہا ہے ۔ کوئی تو اور وجہ ہوگی کہ ریاست مدینہ کی بات کرنے والے کو محلوں میں کیوں بلایا جارہا ہے کیا انہیں اندازہ ہوگیا ہے کہ ریاست مدینہ کا قیام انکے لئے کسی بھی طرح سے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکے گی۔ ہم بات کر رہے تھے وزیر اعظم عمران خان صاحب اور انکی اہلیہ کی جن کے لئے یہ سیاسی دورے سے کہیں بڑھ کر ایک روحانی دورہ تھا ، ستائیس ویں شب کا حصول بھی ہوا ، بیت اللہ میں نوافل کی ادائیگی بھی کی گئی اور نبی آخری الزماں ﷺ کے شہر میں حسب عادت بطور عقیدت و احترام بغیر جوتوں کے وقت گزارا سرکارِ دوعالم ﷺ کے روضہ پر دل کھول کر حاضری بھی دی اور نوافل کی عدائیگی کے اہتمام کیساتھ ساتھ ملک و قوم کی سلامتی کیلئے بھرپور دعائیں بھی کیں۔ ایک حلقہ ایسا بھی ہے جسے یہ دورہ کسی بھی طرح سے ہضم نہیں ہورہا ہوگا۔
عشق ِ رسول ﷺ سے عمران خان صاحب کی محبت فقط عقیدت اور احترام اور ایک مسلمان ہونے کے ناطے نہیں ہے بلکہ ننگے پیر مدینے کی گلیوں میں گھومنا ایک سچے عاشق رسول ﷺ ہونے کی دلیل ہے اور یہ دلیل اللہ سے مدد مانگنے والوں کی نشانی ہے ۔ ترکی کے ڈرامے دیکھانے پر بھی دبائو رہا ہوگا لیکن اسلام کی سربلندی کا وقت یاد دلانے کیلئے یہ ضروری تھا کہ بس اب کسی کے رحم وکرم پر نہیں بلکہ اس کے رحم و کرم پر چلتے ہیں جو اس کا حقیقی حقدار ہے ۔ ارطغرل کی جدو جہد اس بات کی عکاسی ہے کہ اللہ پر سچے دل سے توکل مشکل سے مشکل حالات سے بھی نکال کر لے جاتے ہیں ۔سفر میں ثابت قدمی رکھیں انشاء اللہ پاکستان بھی بہت جلد ہر قسم کی بندشوں سے آزاد ہونے والا ہے ۔