معاشرے کی تعمیر میں جن عناصر کو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل گردانا گیا ہے ان میں مادری زبان کی حیثیت بنیاد کے پتھر کی ہے۔کسی بھی شہری کی تعلیمی اور علمی ترقی اس کی مادری زبان پر منحصر ہوتی ہے۔درس اور تدریس کی زبان اگر فطری اور قابل فہم ہوتب طلبہ نہ صرف نفس مضمون کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں بلکہ اپنے خیالات اور تصورات کو بھی موثر انداز میں پیش کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔تعلیمی نظریات خواہ کتنے ہی اچھے اور تدریسی اصول کتنے ہی بلند کیوں نہ ہوں اگر طلبہ ان کا ادراک نہ کر پائیں تب سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے اور ایسے نظریات اور اصول بے فیض ثابت ہوتے ہیں۔قانون فطرت کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی مادری زبان ان کی فطری زبان ہوتی ہے جسے وہ اپنے اظہار کا وسیلہ بناتے ہیں۔ سکھ دکھ ،خوشی اور غم کے اظہارمیں مادری زبان کااستعمال ہوتاہے۔ مادری زبان انسانی جذبات کے اظہار کا سب سے موثر وسیلہ ہوتی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے بھی مادری زبان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔مطالعہ قرآن سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اقوام کی فکری اور شخصی تعمیر اور تبدیلی کے لئے اللہ تعالیٰ نے جتنے انبیاء مبعوث فرمائے ان کا اپنی اسی قوم سے تعلق رہا ہے۔انبیاء اکرام نے اپنا دعوتی اور انقلابی مشن اپنی قوم کی زبان میں ہی پیش کیا ۔اسلام دین فطرت ہے اور تعلیم کے لئے اسلام نے فطری طریقوں کو پسند فرمایا ہے۔’’کہ ہم جب بھی کوئی رسول بھیجتے ہیں تو اسی قوم ہی کی زبان میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ وضاحت کیساتھ خدا کا پیغام ان تک پہنچائے(سورۃ الابراہیم)۔قابل غور بات یہ ہے کہ اگریہ مشن غیر مانوس اور اجنبی زبان میں پیش کیا جاتا تب ایک بڑی تعداد اس پیغام کو سمجھنے سے قاصر رہتی ۔قانون فطرت کے اس اہم کلیہ سے ہمیں علم ہوتا ہے کہ وہ تعلیم جو مادری زبان میں فراہم کی جائے تاثیر اور افادیت سے خالی نہیں ہوتی ۔ دین کی تبلیغ اور پیغام حق کی ترسیل و دعوت کے لئے انبیاء نے لوگوں کے مزاج، کلچر،تمدن اور فہم کو اپنے پیش نظر رکھا۔دین فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ابتدائی تعلیم جو مادری زبان میں مہیا کی جائے گی اہمیت ،افادیت اور تاثیر سے خالی نہیں ہوگی۔قرآن کو عربی زبان میں نازل کرنے کے مطابق اللہ رب العزت فرماتے ہیں ’’اگر ہم قرآن کو عجمی زبان میں نازل کرتے تو لوگ کہتے کہ اس کی آیات (باتیں) واضح کیوں نہیں ؟ ایک عرب ہوتے ہوئے عجمی زبان بول رہا ہے۔‘‘بچوں کی تعلیم و تربیت اور درس و تدریس میں ہم نے اس نظریے کو یکسر فراموش کر دیا ہے جس کا خمیازہ آج ہماری نسلیں بھگت رہی ہیں ۔افکارکا سطحی پن ، غیر متوازن شخصیت ،فکر و اظہار سے عاری افراد،کوتاہ نگاہی اور کوتاہ ذہنی یہ تمام خرافات کی وجہ صرف غیر مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کی فراہمی اور تحصیل علم ہے۔ مادری زبان سے لاعلمی اور بے پروائی بھی معاشرے کی پسماندگی کے کئی اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔علاقائی زبانوں کی اہمیت سے ہر گز انکار نہیں کیا جاسکتا۔لیکن علاقائی زبان کی ترقی اور ترویج کے لئے اختیار کئے جانے والے موقوف سے مادری زبان سے محبت کرنے والوں کا بے چین اور مضطرب ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ہمہ لسانی یا کثیر لسانی تعلیم کا چرچا (غوغا) آج کل بہت ہورہا ہے۔ آج کے ماہرین تعلیم کی ایک بڑی تعدا د کثیر لسانی تعلیم کی موئید نظر آتی ہے۔لیکن تعلیمی تجربات،تحقیق اور حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے اپنی مادری زبان میں بہ نسبت دیگر زبانوں کے جلد سیکھتے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں اسکولی سطح پر مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت میں اضافہ ہونا چاہئے تھا لیکن بدقسمتی سے اقلیتی زبانوں(اردو) کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں مادری زبان میں تعلیم فراہم نہیں کی گئی وہاں ناخواندگی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔آزادی کے بعد سے آج تک اردو کواپنا شاندار ماضی رکھنے کے باوجود وہ مقام حاصل نہیں ہوپایا جس کی وہ مستحق تھی خاص طور پر شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد جہاں ایک دیسی زبان( اردو) میں ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم کا کامیاب تجربہ کیا گیا ۔ریاست حیدرآباد ،جامعہ عثمانیہ نے انجینئرنگ اور میڈیسن کی اعلیٰ تعلیم کو اردو میں فراہم کرتے ہوئے ساری دنیا کے آگے علاقائی زبانوں کی اہمیت و افادیت کوکامیابی کے ساتھ ثابت کیا گیا ۔آج اپنے گھر میں ہی اردوکی حیثیت ایک کرایے دار کی سی ہوگئی ہے بلکہ اسے بے گھر ہی کردیا گیا ہے۔کسی بھی زبان سے عوام کی تہذیب ،ثقافت اور مذہبی عقائد جڑے ہوتے ہیں۔ قومی اور علاقائی زبانوں کے تسلط سے اقلیتی زبانوں سے وابستہ تہذیب ،ثقافت اور کلچرکو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔زبان کا تحفظ درحقیقت تہذیب،ثقافت اورکلچر کا تحفظ کہلاتا ہے۔1871ء میں فرانس کی سرحدوں پر جب جرمن افواج قابض ہوئی تو فرانس کے ایک استاد(مسٹر ہیبل) نے طلبہ اور معززین شہر کو جمع کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ’’‘فرانسیسی زبان دنیا کی مضبوط ، واضح اور حسین ترین زبان ہے۔ یہ ہمارے قومی ورثے کی واحد محافظ ہے۔ جب ایک قوم غلام بن جاتی ہے تو جب تک وہ اپنی زبان کو محفوظ رکھے، اس کے پاس وہ چابی رہتی ہے جس سے وہ اپنے قید خانے کا دروازہ کھول سکتی ہے‘‘۔ (فرانسیسی مصنف الفوز ڈیویڈ)۔اہل اردو کو بھی آج یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کے ذریعے وہ مخالف طاقتوں اور منصوبوں کو زیر کر سکتے ہیں۔
مادری زبان میں تعلیم کیوں ضروری ہے:۔دنیا میں صرف دو ایسی زبانیں ہیں جنہیں انسان بغیر کسی علم و اکتساب کے سیکھتا اور سمجھتا ہے ،ایک مادری زبان اور دوسری اشاروں کی زبان جسے بین الاقوامی زبان (یونیورسل لینگویج ) بھی کہا جاتا ہے۔رحم مادر میں ہی آوازوں کی پہچان،الفاظ و جملوں کی ترتیب کا شعور ذہن انسانی کو خداوند کریم کا عطاکردہ ایک عظیم تحفہ ہے۔رحم مادر میں ہی بچے میں فہم کی صلاحیت پیدا ہونے لگتی ہے۔اسی پس منظر میں بچہ اپنی پیدا ئش کے بعدگردو پیش میں بولی جانے والی زبان سے فہم و ادراک کی صلاحیت حاصل کرتاہے۔ لسانیات،نفسیات اور تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی فہم و فراست میں وسعت ،گہرائی اور گیرائی صرف مادری زبان ہی سے پیدا ہوتی ہے۔گویا یہ کہاجاسکتا ہے کہ بچہ ماں کی کوکھ سے جو زبان لے کر دنیا میں آتا ہے وہ اس کی مادری زبان ہوتی ہے۔مادری زبان کو صرف ایک زبان کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے ۔مادری زبان کسی قوم کی تہذیب ،ثقافت،جذبات ا ور احساسات کی ترجمان ہوتی ہے۔خیالات ،افکارو معلومات کے اظہار وترسیل ا ورابلاغ میں مادری زبان ایک قدرتی اور سہل وسیلے کا کام انجام دیتی ہے۔سوچنے ،سمجھنے کا عمل لاشعوری طور پر مادری زبان میں ہی انجام پاتا ہے۔حتیٰ کہ انسان خواب بھی مادری زبان میں ہی دیکھتا ہے۔ اختراعی اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہارمیں مادری زبان کے رول کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔مادری زبان سیکھنے اور سکھانے میںآسان ہوتی ہے۔سیکھنے ،سکھانے کے علاوہ تخلیق و ایجاد کا بھی مادری زبان سے راست تعلق ہوتا ہے۔مختلف علوم (سائنسی،تکنیکی،فنی اور دیگر علوم لطیف(فائن آرٹس))کے تصوراتی فہم اورمعلومات کی ترسیل میں مادری زبان سب سے بہتر اور موثر وسیلہ ہوتی ہے۔مادری زبان اپنے پہلومیں تمام عصری علوم کے نفس مضمون اور تصورات کو بغیر کسی اصطلاح کے سمجھنے ،سمجھانے اور ترسیل و ابلاغ کی گنجائش رکھتی ہے۔انسانی شخصیت کی تعمیر بھی مادری زبان کے زیر اثر ہی انجام پاتی ہے۔اسی وجہ سے ماہرین تعلیم نے مادری زبان کو حصول علم کا سب سے بہتر اور موثر ذریعہ قرار دیا ہے۔آج بھی دنیا کے تقریباسبھی ترقی یافتہ ممالک میں مادر ی زبان میں تعلیم کا رجحان عام ہے۔مادری زبان کی اہمیت و افادیت کو سابق سوویت یونین کی ریاست داغستان کا شاعر رسول حمزہ توف یوں بیان کرتا ہے؛ ’’میرے نزدیک زبانیں، آسمان پر بکھرے ہوئے ستاروں کیطرح ہیں اور میں یہ نہیں کہوں گا کہ تمام ستارے ایک دوسرے میں ضم ہو کر ایک بڑے ستارے کا روپ دھار لیں کیوں سورج تو پہلے سے ہی موجود ہے ۔لیکن سورج کی موجودگی کے باوجودیہ ضروری ہے کہ ستارے آسمان پر چمکتے رہیں اور ہر آدمی کے پاس اپنا ستارہ ہو۔‘‘اسی وجہ سے پچاس سال قبل یونیسکو (UNESCO) نے عالمی سطح پر ابتدائی تعلیم کو بچوں کی مادری زبان میں فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔اور مادری زبان کی اہمیت و معنویت کو تسلیم کرتے ہوئے ہرسال 21فروری کو عالمی یوم مادری زبان منایا جاتا ہے۔ یونیسکو (UNESCO)نے مادری زبان کو بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لئے سب سے موثر و مفید قرار دیا ہے۔مادری زبان نہ صرف بچوں میں تحقیقی ،تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ کاباعث بنتی ہے بلکہ بچوں کے پاس پہلے سے ہی اپنی زبان کا ایک ذخیرہ موجود ہوتا ہے جس سے بچے نئے الفاظ سیکھنے کے غیر دلچسپ عمل سے بچ جاتے ہیں۔مادری زبان میں سیکھنے سے انہیں گوناں گو خوشی اور مسرت حاصل ہوتی ہے۔ان کے ذہن اکتسابی بوجھ سے محفوظ رہتے ہیں۔دنیا میں جہاں کہیں مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا وہاں ترک تعلیم کے رجحان میں کرشماتی گراوٹ درج کی گئی ہے۔مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ میں اپنی مادری زبان کی قدرو قیمت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔بچے جب مادری زبان میں تعلیم حاصل نہیں کر پاتے ہیں تو یہ سوچنے لگتے ہیں کہ علمی اعتبارسے ان کی مادری زبان اہمیت و افادیت سے عاری ہے اور ان میں اپنی زبان سے محبت اور احترام کا جذبہ کم ہونے لگتاہے۔مادر ی زبان میں تعلیم کے متعلق یونیسکو کا کہنا ہے کہ ’’برسوں کی تحقیق نے یہ ثابت کیا کہ جو بچے اپنی مادری زبان سے تعلیم کی ابتدا کر تے ہیں شروع سے ہی ا ن کی کار کردگی بہتر ہوتی ہے۔ا ن کی یہ اچھی کار کردگی مسلسل قائم رہتی ہے بہ نسبت ان بچوں کے جو اپنی تعلیم ایک نئی زبان سے شروع کرتے ہیں۔اس نتیجہ پر ہر کہیں عمل ہورہا ہے اگر چہ ہم اب بھی ایسی حکومتوں کے بارے میں سنتے ہیں جو چھوٹے بچوں پر اجنبی زبان تھوپنے پر اصرار کرتے ہیں،وہ ایسا یا تو غلطی سے جدیدیت کی خاطر کر رہے ہوتے ہیں یا سماجی طورپر حاوی گروہ کی زبان کو فو قیت دینے کی خاطر ایسا کر رہے ہوتے ہیں’’۔یو نیسکو نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی شرح خواندگی میں کمی کی ایک بڑی وجہ مادری زبان میں تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ ابتدائی تعلیم سے متعلق یونیسکو کی جاری کردہ پالیسی میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ چھوٹے بچوں کو ابتدائی 6سال تک مادری زبان میں ہی تعلیم دی جانی چاہئے، تاکہ جو کچھ بچوں نے سیکھا ہے وہ بھول نہ پائیں۔
دستور ہندکی روسے مادری زبان میں پرائمری سطح پر تعلیم کی سہولت ؛۔دستور ہند کی دفعہA 350کے تحت پرائمری سطح پر مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنے کی واضح گنجائش رکھی گئی ہے تاکہ لسانی اقلیتوں کی زبانوں کا تحفظ کیا جاسکے۔تفہیم و وضاحت کے لئے دستور ہند کی دفعہ350Aکو یہاں نقل کرنا ضروری محسوس کرتا ہوں’’ہر ریاستی حکومت اور لوکل اتھاریٹی پر لازم ہے کہ وہ اپنے علاقے کی لسانی اقلیتوں کے بچوں کے لئے پرائمری سطح پر ان کی مادری زبان میں تعلیم کا انتظام کرے اور جب صدر جمہوریہ محسوس کرے کہ ان سہولتوں کی فراہمی ضروری ہے تو وہ کسی بھی ریاست کو ان کی پابجائی کے احکامات دے سکتا ہے۔‘‘دستور کی اس مراعات سے فیض اٹھاتے ہوئے لسانی اقلیتیں اپنی زبانوں کاتحفظ یقینی بنا سکتے ہیں۔لسانی اقلیت کے ضمن میں ایک ا ہم بات آپ کے گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ زبان کے چھوٹے اور بڑے ہونے کا تعین اس کے بولنے والوں کی اکثریت سے ہوتا ہے اور نہ اس کی قدامت سے۔زبان کی مقبولیت اور اس کے نافع ہونے کے دو ہی پیمانے ماہرین لسانیا ت کے پاس پائے جاتے ہیں کہ اس کا ادبی سرمایہ کتنا عظیم اور شاندار ہے دوسرا اس کے بولنے والے اپنی مادری زبان سے کس درجہ محبت کرتے ہیں او ر اس کے استعمال میں کتنے مستعد ہیں۔اردو زبان ماہرین لسانیات کی ان دو کسوٹیوں پر بالکل کھری اترتی ہے۔ اس کا دامن عظیم سرمایہ ادب سے مالامال ہے اور اس میں نہ صرف ادبی شاہکار پائے جاتے ہیں بلکہ اس کا دامن سائنسی اور دیگر فنی علوم سے بھی مالامال نظرآتا ہے۔اس کے بولنے والے اس سے والہانہ جنون کی حد تک محبت بھی کرتے ہیں۔
انگریزی ذریعہ تعلیم کی قباحتیں:۔جن ماہرین تعلیم کی سفارشات پر انگریزی کو جماعت اول سے لازمی قرار دیا گیا ہے اور پرائمری سطح پر ہماری ریاست میں انگریزی میں تمام مضامین پڑھانے والے انگریزی میڈیم اسکولوں کو قائم کرنے کی منظوریاں مرحمت کی گئی ہے اس بارے میں محکمہ تعلیمات اور حکومت کو از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ذہنوں میں یہ بات پیوست کر دی گئی ہے کہ قوم و ملک کی ترقی کا واحد راستہ انگریزی ذریعہ تعلیم ہی ہے جب کہ یہ ایک خام خیالی ہے جس کا حقیقت سے دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔پرائمری سطح پر پڑھنے والے طلبہ عموماً4 (چار)تا10(دس) سال کی عمر کے ہوتے ہیں۔اول جماعت ہی سے کسی ایک غیر مانوس جماعت کو مادری زبان کے ساتھ شامل نصاب کرنا ماہرین تعلیم و لسانیات کے نظریات کے یکسر منافی ہے۔اس فیصلے سے اکثر اساتذہ بھی الجھن کا شکار ہوگئے ہیں۔زبان کی تدریس کے لئے زبان پر عبور رکھنے والے اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ پرائمری سطح پر انگریزی زبان کے ماہرین کے بغیر ہی یہ کام انجام دیا جارہاہے۔ایک معصوم بچہ جس کا ذہن ابھی ارتقااور نشوونماء کے ابتدائی مراحل سے گزررہا ہے اور جو ابھی اپنی مادری زبان ( نوشت وخواندہ) سیکھنے میں مصروف ہے اس کے چھوٹے سے ذہن پر انگریزی کا بوجھ پوری قوت کے ساتھ ڈال دینا کیا ایک غیر فطری اور غیر اصولی فیصلہ نہیں ہے۔عالمی سطح پر بھی دوسری زبان کی تدریس تحتانوی سطح پررائج ہے لیکن ہمارے تعلیمی نظام میں بددیسی زبان کو سیکھنے کے لئے جماعت اول ہی سے زور دیا جاتا ہے جب کہ بچہ ابھی مادری زبان ہی نہیں سیکھا پاتا ہے۔مادری زبان کو سکھائے بغیر جب کوئی دوسری غیر مانوس زبان بھی شامل نصاب کر دی جاتی ہے تب زبانوں کی تدریس میں پائے جانے والے اختلاف کی وجہ سے بچے کی فطری صلاحیتیں دب جاتی ہیں اور وہ تعلیم سے فرار کے راستے ڈھونڈنے لگتا ہے۔بچے پر تعلیم کے ساتھ کتابوں کا اضافی بوجھ بھی عائد ہوجاتا ہے۔ہماری موجود ہ تعلیمی صورتحال کو دیکھا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم بچوں کو تعلیم نہیں دے رہے ہیں بلکہ زبانیں سکھا رہے ہیں۔طوطے کی طرح زبان کو رٹایا جارہاہے۔اس وقت زبانوں کی تدریس کی عملی صورتحال یہ ہے کہ ہم قومی زبان ہندی بھی پڑھا رہے ہیں،مادری زبان اردو بھی پڑھا رہے ہیں،انگریزی بھی پڑھا رہے ہیں اور امسال سے حکومت کے جاری کردہ احکامات کی روشنی میں اول تا انٹرمیڈیٹ لازمی طور پر علاقائی زبان (تلگو ) بھی پڑھائیں گے۔یہ ترتیب حکومت کے سہ لسانی فارمولہ کی سفارشات کے بھی مغائر ہیں۔ UNESCO رپورٹ کی روشنی میں کم سے کم ایک نکتہ واضح ہوجاتا ہے کہ ایک کلچر کی زبان کے ساتھ دوسرے کلچر کی زبان کی تدریس آسان کام نہیں ہے۔تعلیمی پالیسی وضع کرتے وقت بالخصوص زبان کی تدریس کو لازمی قرار دینے سے پہلے غور کرنا ضروری ہے کہ ہر زبان دوسری زبان سے مختلف ہے اور پڑھانے والے اساتذہ بھی زبان کے علم اور تدریس سے ناواقف ہوتے ہیں۔آخر اس طرز تعلیم سے ہم بچوں کو کیا سکھانا چاہتے ہیں۔جو کچھ سکھایا جارہا ہے کیا وہ الفاظ کے ہجوں اور رٹوں تک محدود نہیں ہے ؟کیا بچے سبق کا مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کرنے کے لائق ہیں؟ کھل کر مافی الضمیربیان کرنے سے طلبہ میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔بچے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جب بات کرتے ہیں تو ان میں اعتماد کی فضاء پیدا ہوتی ہے مگر اس وقت زائد زبانوں کی تدریس کی وجہ سے ہمارے نونہال اعتماد سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ وہ نہ تو اپنی بات مادری زبان میں سمجھانے کے لائق ہیں اور نہ ہی انگریزی پر ا نہیں عبور حاصل ہے۔آج اقوام عالم اپنے بچوں کو علم پڑھا رہی ہے اور ہم زبان پڑھا رہے ہیں۔ جب کہ ہم جانتے ہیں کہ علم ایک حقیقت ہے اور زبان محض علم تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔بچوں کو مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم کرنا گویا تعلیمی نسل کشی کے مترادف ہے۔مادری زبان سے عدم واقفیت نونہالوں کی صلاحیتوں کے زیاں کا سبب بن جاتی ہے۔بین الاقوامی زبان (انگریزی)کی تدریس بھی ضروری ہے لیکن اس کو مادری زبان کی قیمت پر سیکھنا خودکشی سے کم نہیں ہے۔انگریزی زبان جدید علوم کی زبان ہے اس کی تدریس نہایت اہم ہے ۔انگریزی کو چوتھی جماعت سے ایک زبان کے طور پر متعارف کرنا نفسیاتی اور لسانیات اصولوں کے عین مطابق نظر آتا ہے ۔اول تا سوم ،طلبہ میں اپنی مادری زبان میں نوشت و خواند کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے اور ایک غیرمانوس زبان سیکھنے میں ان کو کم دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ عمر کے اس درجے میں تمیز اور شعور کی سطح بھی اونچی ہوجاتی ہے۔انگریزی زبان کی تدریس ابتدائی جماعتوں (جماعت چہارم) سے قابل قبول ہے لیکن انگریزی کو ذریعہ تعلیم ابتدائی جماعتوں میں بنا دینا بچوں کی نظر و فکر کو محدود کردینے کے مترادف ہے۔اگر مسئلہ تعلیم میں انگریزی زبان کی اہمیت کا ہے تو ہر طالب علم اپنی زبان پر دسترس حاصل کرنے کے بعد صرف ایک دیڑھ سال میں انگریزی کیا کسی بھی زبان پر قدرت حاصل کرسکتا ہے۔ ثانوی سطح پر انگریزی کے کراش کورس بھی اس ضمن میں بہت معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ذریعہ تعلیم انگریزی کے نام پر طلبہ کو سالہاسال مشقتسے دوچار کرنا ایک غیر فطری عمل ہے۔ (جاری ہے)
اہم بلاگز
نئے سال کا آغاز
کیوں نہ نئے سال کا آغاز ہم اپنے مسلمان ہونے اور قول و عمل میں پورے اترنے کا عہد کرتے ہوئے اللہ سے اس پر باعمل ہونے اور ہمیشہ قائم رھنے والا بننے کی دعائیں کریں کہ وہ ہمارے لئے اس میں آسانیاں بھی پیدا کرے آمین ثم آمین ۔
سب سے پہلے ہم اپنے گھروں میں اللہ سے جڑے رہنے اور اسکے احکامات پر باعمل ہونے اور اس کی تر غیب وتربیت خوش اسلوبی سے روزمرہ کے کاموں کی طرح لازمی حصہ بنائیں ۔ سب کا آپس میں میل محبت خوش اخلاقی کے طور طریقے گھروں میں صفائی و ترتیب کے ساتھ اپنے گھرکے باہر بھی اسکا احساس کرنا گھرکی گندگی یا پانی سے گلی اور آس پڑوس کے دروازوں کو بھی بچانے اور انھیں تکلیف سے بچانے والا بننا ۔۔ گھر کےباہر میل جول والوں سے خوش خلقی سے ملنا جلنا انکے دکھ درد میں انکا ساتھ دینے کی پوری کوشش کرنا ۔گھر اور ماحول میں قرآن ، نماز، اذان ، اور حدیثوں پر باتیں کرنا اس کو بہترین انداز میں ہر طرف پھیلانے کی تگ و دو اور خاص بچوں میں شوق پیدا کرنے کی ترغیب دینا کہ ازان دینے والے کا اللہ کےہاں سب سے بلند مقام ہوگا کیونکہ وہ دن میں پانچ بار اللہ کی طرف بلانے کا کام کرتا ہے تو وہ اسے اپنے لئے بڑا اعزاز سمجھیں ۔ گلی، محلوں، سڑکوں، بازاروں میں لوگ باشعور شہری بن کر ان جگہوں کو بھی اپنے گھروں کی طرح صاف ستھرا رکھنے والے بن کر اسے ہر طرح کی گندگی سے بچائیں اور دوسروں کو بھی اسکا احساس دلائیں ۔
نئے سال میں بچوں کو پودے لگانے کا کام دیں اسکولوں میں استاد اس کا آغاز کریں اور اس پربچوں کو انعام بھی دیں تاکہ ہر بچے کو شوق ہو پودے لگانے اور اس کی بہترین طریقے سے دیکھ بھال کر کے حفاظت بھی کرنے والے ہوں ہر جگہ اکھٹے بیٹھ کر جمع ہونے والے بجائے فضول گوئی کرنے کے ایک دوسرے کا حال احوال معلوم کرنے کی کوشش کریں اور نبی کریم ﷺکے طور طریقوں کو احادیث کےذریعہ سنانے اور سننے کا اہتمام کریں اور ہر روز ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے بن سکیں نیکیوں کو زبانی کہنے سننے والے بننے کے بجائے اپنے عمل سے ثابت کرنے کا عہد کریں ،کمزور مجبور افراد سے رحم دلی اور محبت کا سلوک اپنائیں تو ہر ایک میں محبت و ہمدردی پیدا ہوتی جائے گی ۔
کاش اس معاشرے میں ہر فرد فضولیات کو اپنے گھر اور معاشرے سے دور کرنے کی کوشش کرنے والا بن جائے تو وقت پیسہ اور اللہ کی رضا سب کچھ ملتے رھنے کے راستے کھلتے جائیں گے اور خیر وبرکت کی بہاریں اور رنگ ونور کی جگمگاہٹیں ہرطرف روشنیوں کے مینارے کی شکل میں پھیلتی رہے گی ان شاء اللہ کاش ہرمسلمان اس نئے سال کا آغاز اس طرح کرنے والا بن جائے۔ آمین ۔
محبت کی سزا ٹھہری
میری ایک انتہائی پسندیدہ کتاب کے تیرہویں باب کی ابتدائی سطور میں تذکرہ ہوا ہے کہ قوم میں دو طبقات ہوتے ہیں عوام اور خواص۔
کتاب کانام اور مصنف کا نام کالم کے آخر میں۔۔
ہاں کچھ تذکرہ ہم بھی عوام کا اور خواص کا کریں گے۔
2014ء کے احتجاجی دھرنے کی یادیں لوگوں کی یادداشت سے محو نہیں ہوئی ہیں۔ جس زبان اور کلچر نے اس دھرنے کی کوکھ سے جنم لیا تھاوہ سب آج پر پرزے نکال چکا ہے۔۔ خواص کی خدمت میں گزارش ہے کہ احتجاج بالعموم ناانصافی اور ظلم کا ردِعمل ہوتا ہے۔ کب تک ایسا چلے گا۔۔؟
عدلیہ اور الیکشن کمیشن کب تک ،پابند، رہیں گے ؟
پی ٹی آئی کی قیادت سے سوال ہے کہ آپ کا دھرنا غیر ملکیوں کے دورے کے ساتھ مشروط کیوں ہے؟۔۔۔ بانی پی ٹی آئی سے یہ پوچھنا ہے کہ دماغ، دولت اور حکمت کی طاقت اگر ہے کچھ آپ کے پاس تو خود پہ مرمٹنے والوں کی تربیت کا انتظام کب کریں گے ؟ جبر کے نظام کا مارا ایک دیہاڑی دار یا ملازمت پیشہ عام فرد بے چارہ کیسے جان سکتا ہے کہ درخت کٹتے ہیں تو نقصان ملک کا۔۔۔۔ بیمار راستے ہی میں دم توڑ جائے تو احتجاج زندہ مگر انسانیت مردہ۔۔ پولیس والے اور رینجرز کےجوان گاڑی تلے کچلے جاتے ہیں تو دھرنا شاید جیت جاتا ہے مگر زندگی ہار جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند رہتے ہیں تو آپ کی سیاست چمکتی ہے مگر معصوم طلبہ کا مستقبل تاریک ہونے لگتا ہے ۔۔۔ یہ سب تو آپ بتائیں گے سمجھائیں گے نا اپنے کارکن کو۔
اب سوال پی ٹی أئی کی جیل سے باہر قیادت سے۔۔ مثلاً علی امین گنڈاپور صاحب اور بشریٰ بی بی بھئی آپ لوگ عین خطرے کے وقت ہی "اغوا" کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟ ۔۔۔ کاش اپنے جذبے کی تربیت کی ہوتی تو آج جنوں ہوتا، جذبہ جنوں ہوتا تو آپ ڈٹ جاتے اور کھاتے گولی سینے پر ۔۔۔ گرفتار ہو جاتے ۔۔
~ تختہء دار محبت کی سزا ٹھہری ہے
جان لینا میرے قاتل کی سزا ٹھہری ہے
سبھی خواص کے لیے مخلصانہ مشورہ ہے کہ لیڈر بنیے "پلیڈر" نہیں۔ لیڈر بننے کے لیے کیوں نہ اس ہستی کی حیات کا مطالعہ کیا جائے کہ غیروں نے بھی جس کی عظمت کا اعتراف کیا۔ میخائل ایچ ہارٹ نے خوب تحقیق کے بعد ہی
The 100۔ A RANKING OF THE MOST INFLUENTIAL PERSONS IN HISTORY
کتاب میں محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا نام سر فہرست رکھا۔
آج ہمارے خواص اگر اس ہستی کی زندگی سے اصول لیتے تو یہ لاشیں نہ گرتیں، شجر و حجر زخمی نہ ہوتے، فضا کا رنگ ہی اور ہوتا۔ لگتا ہے ہم سب بس بگٹٹ دوڑے جارہے ہیں، نہ سمت کا تعین نہ نصب العین کا فہم، نہ تاریخ سے روشنی کا اخذ نہ مستقبل کی تصویر واضح۔
میرے ہم وطن! سوچو تو تمھارا پیدا کرنے والا تمھیں کس قدر اونچے مقام پہ دیکھنا چاہتاہے۔تمھیں حکم دیا کہ تمنا کرو
""ربناھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرہ اعین و اجعلنا للمتقین اماما۔ (الفرقان 74) "" اے ہمارے رب ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں...
تنگدستی کا رونا !۔
ہماری دلیر اور بہادر قوم جس نے کورونا جیسے موذی وائرس کو تو جلد شکست دے دی لیکن مہنگائی کے آگے بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سونامی کی طرح ہمیں اپنی لپیٹ میں لے جائے گا اور کچھ نہیں بچے گا۔ جب تک کسی چیز کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں تب تک اس حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔
کیا سچ میں ہمارے ملک میں اتنی مہنگائی ہے کہ ہماری ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔ کیا واقعی ہمیں ان چیزوں کی ضرورت ہے کیا واقعی ہی کھانا کھانے کے بعدٓآؤٹ ڈور ڈائنگ بھی ہماری ضرورت ہے۔ کیا واقعی ہی جہاں شادیوں پر اتنے کھانے بنتے ہیں اور جس میں آدھے سے زیادہ ضائع ہو جاتے ہیں ان کی ضرورت ہے۔ کیا ایک یا دو کھانوں سے ہمارا پیٹ نہیں بھرتا ہے۔زندگی کو ہم لوگوں نے بہت پیچیدہ بنا لیا ہے۔ بے جا نمودنمائش نے انسان کی زندگی کو مشکل سے مشکل کردیا ہے۔ ایک ٹرینڈ چل پڑتا ہے اور پھر سارے اس پر چل پڑتے ہیں۔
اب شادی کی تقریبات دیکھ لیجیے۔ اس کے ہی کوئی کئی کئی فنکشن ہوتے ہیں جبکہ جو کہ ہماری روایات اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔مہنگائی کے بعد جو دوسرا رونا ہے ہماری قوم کا وہ بے روزگاری کا ہے دیکھا جائے تو جس لحاظ سے مہنگائی بڑھی ہے اسی حساب سے روزگار کے مواقع بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں پڑوس ملک انٹرنیٹ کو استعمال کر کے پیسہ کمانے میں دنیا کے بہت سے ملکوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ وہاں ملک میں بس ہر وقت سرکاری نوکری کے اشتہار کے انتظار میں ہی عمر گزار دی جاتی ہے۔جیسے جون ایلیا ایک شعر میں کہتا ہے:عمر گزارنی تھی عمر گزار دی گئیہم بھی بجائے اس کے کوئی کامن سینس سے کام لیں اور اپنے لیے دوسرے مواقع بھی تلاش کریں۔
بیرون کے ممالک میں اپنے بچوں کو 18 سال کی عمر سے ہی نت نئے کاموں کی جانب رغبت دلائی جاتی ہے، جس سے نہ صرف ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ وہ اچھا خاصا کمانے بھی لگ جاتے ہیں۔نوجوان اپنی پڑھائی اور ضرورت زندگی کے خود ذمے داری خود اٹھاتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ شرف عموماً 16جماعتیں مکمل کرنے کے بعد نوجوان کسی کام کی جانب بڑھتے ہیں، یا کوئی جاب وغیرہ تلاش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر 25 برس تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ سرکاری نوکری کا انتظار کرتے اور ادھر ادھر کے دھکے کھانے تک وہ والدین کی ہی ذمے داری ہوتے ہیں۔ اس وقت یقینا دوہری مشکلات پیدا ہوجاتی ہیں، ایک نوکری کی تلاش کی اور دوسری گھر چلانے کی تو پھر مہنگائی بڑھتی ہے ۔گزرتے سالوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شماریاتی اعداد و شمار کے مطابق 3.98 سے4 .65 ہو گئی ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی شرح بھی مہنگائی میں اضافے کا باعث ہے لیکن فضول خرچیوں اور خواہشات میں اضافہ ہوا ہے وہاں مہنگائی کا تناسب بھی بہر کیف بڑھ چکا ہے۔
پاکستان...
لاہور لاہور ہے ! اور کراچی؟
اسفند نے اس سال سردیوں میں لاہور کی سیر کا پروگرام بنایا اور کہا کہ ہر سال میرے لاہور والے کزنز ہی کراچی آتے ہیں اس بار کیوں نہ ہم ہی چلے جائیں۔ سب نے انہیں بخوشی الوداع کہ۔ اسفند گرین لائن میں لاہور روانہ ہوگیا جہاں پر اس کا خوش آمدید کہتے ہوئے بہت پر تپاک استقبال ہوا سب سے پہلے نان اور پھجے کے پائے کا ناشتہ کروایا گیا۔
دھان پان سے اسفند کو اتنے ہیوی ناشتے کی عادت ہی نہ تھی وہ توبس دو توس یا پاپے پر مکھن یا جیم لگاکر چائے سے کھالیا کرتے تھےالبتہ چھٹی والے دن انڈا پراٹھا مل جاتا تھا۔ بہر حال ناشتے کے بعد خوب لمبی تان کے سوئے اٹھے تو اسفند کے چہیتے اور لاڈلے سب سے چھوٹےکزن شہر یار عرف شیری نے ان کو سیب پیش کیے اور کہا پائین ایپل کھا ئیے۔ اسفند حیران یہ تو ایپل ہے اور شیری پائن ایپل کہہ رہے ہیں اتنے میں چاچو آگئے اور کہا بیٹا سیب کھا جان بنا۔ تو اس نے کہا چاچو شیری تو کہہ رہا تھا پائین ایپل کھاؤ چاچو ہنسے بیٹا جی پائین تواس نے آپکو کہا ہے یعنی بھائی جان اسفند کھسیا گیا، ابھی نان پائے ہضم ہی نہ ہوئے تھےکہ دوپہر کاکھانا لگا دیا گیا۔ گھی میں تر بتر مرغ پلاؤ، رائتہ، سلاد، شامی کباب اور خوب سارے دیسی گھی کے تڑکے والا ساگ گوشت موجود تھا اسفند نے بڑی مشکلوں سے پلاؤ کے چند نوالے حلق سے اتارے۔ اور کباب رائتے سے کھالیا۔ پھر لوڈو اور کیرم کا دور چلا ۔
کھیل کے بعد مینار پاکستان اسکے ساتھ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جانے کا پروگرام بنالیا گیا جب چچا کےگھر والوں کو بتایا تو انہوں نے شام کی چائے کے ساتھ سموسے اور کیک کھلاکر بھیجا مینار پاکستان کے ساتھ دیسی ایفل ٹاور بھی دیکھا پائین کی تکرار سنی پائین رستہ چھڈو، پائین ایتھے کیوں کھلوتے ہو؟ اسفند حیران ہوکر بولا بھائی ہم تو کھڑے ہیں کھیل تو نہیں رہے۔ اس بندے نے اوہو کراچی توں آیا جے۔ جی آیاں نوں۔ شیری نے کہا پائین چلیں آپکو یہاں کے مشہور دہی بھلے کھلا تا ہوں اسفند نے کہا نہیں بھائی میں پہلے ہی بہت کچھ کھا چکا ہوں اب گنجائش نہیں البتہ کولڈ ڈرنکس پی لیتے ہیں۔
خوب گھوم پھر کر اور لاہور کے پانی کی تاثیر کی وجہ رات کو بھوک محسوس ہونے لگی۔خوب بڑے سائز کے کوفتے گاڑھے شوربے کے ساتھ تھے ایک کوفتہ کھالیا لیکن عادت نہ تھی ہیوی کھانوں کی طبیعت مضمحل رہی۔ ایسے میں چاچو نے اسکاخیال کرتے ہوئے اسے ہاضمے کا سیرپ پلایا تو بڑی مشکل سے سویا اور صبح اٹھتے ہی واپسی کا شور مچادیا، شیری نے کہا پائین کیوں ناراض ہوگئے ؟ اسفند بولا میں ناراض نہیں ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ آپ لوگ تو مجھے ہیوی کھانے کھلا کھلا کر دو چار دن میں ہی پہلوان بنادوگے دیسی گھی میں تیرتے کھانوں کا میں عادی نہیں ہوں میں ہلکا پھلکا کھانے والوں میں سے ہوں یہ بات سن کر چچی نے تسلی دیتے ہوئے کہا...
اقصیٰ ہم تیرے مجرم!
آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر ہم یہ کہیں کہ ہم مجبور ہیں، ہم کچھ کر نہیں سکتے، ہم نہیں جانتے تو اس سے بڑا اور کوئی جھوٹ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمارا مطلب ہوتا ہے تو وہاں تمام مشکلات کے باوجود بھی مسائل کا حل نکال لیتے ہیں لیکن جب بات کسی کی مدد کرنے کی آ جائے تو سو بہانے اور دلیلیں تراش لیتے ہیں۔
کتنے آسان راستے دین نے بتا دیے۔ قدم قدم پر رہنمائی کر دی گئی۔ قرآن میں کہاں مشکل دکھائی دیتی ہے؟ ہر آیت سے روشنی کی کرنیں پھوٹتی ہیں جو ہمیں راہ سمجھاتی ہیں۔ لیکن جب ہم اس روشنی سے فائدہ ہی نہ اٹھانا چاہتے ہوں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ بنی اسرائیل نے تو انبیاء کی تعلیمات بھلائیں اور نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اس کا اعلان بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم مسلمان بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے نفس کی پوجا بھی کرتے ہیں۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آنسو بھی بہاتے ہیں اور دوسری طرف ان تمام کمپنیوں کے اشیاء بھی خریدتے ہیں جن کی پشت پناہی سے دہشت گرد اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کر رہے ہیں۔ آج بھی ہزاروں مسلم نوجوان امریکہ اور کینیڈا جانے کو اپنا مقصدِ زندگی بنائے ہوئے ہیں اور ان کی معیشت کی مضبوطی میں اپنا حصہ ڈال کر اپنے ہی معصوم و مظلوم مسلمان بھائیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگتے ہیں۔
وہ مسلمان جو مسلم ممالک کے رہائشی ہیں اگر وہ بھی اس موقع پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ شاید انہیں اس چیز کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو کھلم کھلا اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ وہ مسجدِ اقصیٰ کے مجرم ہیں۔ بے شک ہم سب اس گناہ میں شامل ہیں۔ ہاں ہاں ہم اقرار کرتے ہیں کہ اے مسجدِ اقصیٰ ہم تیرے مجرم ہیں۔ ہم انبیاء کی سرزمین کے مجرم ہیں۔ سرزمینِ پاک کے لیے لڑنے والے فدا کاروں کے مجرم ہیں۔ ان معصوم بچوں کے مجرم ہیں جنہوں نے ابھی دنیا میں سانس بھی نہیں لی تھی۔
اے نبیوں کی سرزمین دیکھنا یہی شہیدوں کا خون اپنی قیمت وصول کرے گا۔ چاہے مسلم حکمران ان مظلوموں کی مدد نہ بھی کریں لیکن مسلم امہ غیر محسوس انداز سے بیدار ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے جرم کا احساس ہو چلا ہے۔ دنیا کی لذتوں میں مدہوش مسلم امہ کو اہل فلسطین کے خون نے بیدار کر دیا ہے۔
اب وہ وقت دور نہیں کہ طاغوتی قوتوں کے سارے حربے ناکام ہو جائیں گے اور جانثاروں کے خون کی خوشبو فضاؤں میں تحلیل ہو کر پوری امہ کو بیدار کر دے گی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امتِ مسلم مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اٹھ کھڑی ہوگی تو اس دم اللہ بھی فرشتوں کے ذریعے اپنی مدد آسمانوں سے ضرور اتارے گا۔ بس اب...
طنز و مزاح
خوف ناک
اماں جان قدرِ غصے میں کمرے میں داخل ہوئیں؛ اے لڑکی کہاں رکھی ہے میری عینک،۔ میں نے انہیں غور سے دیکھا شاید مذاق کر رہی ہیں ۔ کیونکہ عینک تو ان کی ناک پہ دھری تھی۔ ارے اماں کیا ہو گیا آپ کو ۔۔۔ عینک تو آپ کی ناک پر دھری ہے، انہوں نے مجھے "غضبناک" نگاہوں سے گھورا اور اپنی عینک کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔." او ہو یہ کیا ہو گیا مجھ بھلکڑ کو بھی۔۔۔۔۔" دیکھو تو تجھ پر چلی گئی ہوں نا۔۔۔۔۔۔ لو بھلا بتاؤ عینک کو ناک پر لگا کر تجھ سے پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اماں نے سارا ملبہ مجھ غریب پر ڈال دیا۔۔۔۔" ارے اماں بچے اپنی ماؤں پر جاتے ہیں مائیں اپنے بچوں پر نہیں جاتی آپ کے ہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے." میں ایک بار پھر اماں کی خوفناک نگاہوں کے حصار میں تھی..... میرا یہ کہنا تھا کہ ، اماں برس پڑی...." تو پہلے اپنا بہتا ناک صاف کر". اماں یہ کہتے ہوئے۔ " خوفناک نگاہوں "۔ سے مجھے گھورتی ہوئی باہر نکل گئیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ناک کی طرف بڑھایا کہیں یہ واقعی بہہ تو نہیں رہی۔۔۔ لیکن نہیں۔۔۔ اماں نے تو میری۔ ' ناک ہی اڑا کر رکھ دی تھی۔"۔ اپنے ناک اونچی کرانے کے چکر۔ " میں نے اماں کی بات پر ناک بھوں چڑھایا! اور اپنے بھائی بلال کے کمرے میں جا پہنچی۔
اماں کی باتوں کا غصہ میری' ناک پر دھرا تھا'۔ بلال نے مجھے دیکھتے ہی میری طوطے جیسی ناک پر حملہ کر دیا باجی سارے منہ پر ایک آپ کی' ناک" ہی نظر آتی ہے کچھ کھا پی لیا کرو ! کیوں ابا کی ناک کٹوانے کے چکر میں ہو۔ میں نے بلال کی باتوں پر ناک چڑھاتے ہوئے قدرِ غصے سے کہا۔! تم کیوں ناک کی کھال نکال رہے ہو میرے یہ کہتے ہی بلال کو ہنسی کا دورہ پڑ گیا ارے باجی ! ناک کی کھال نہیں بال کی کھال ہوتا ہے کیا ہو گیا آپ کو۔ بڑی رائٹر بنی پھرتی ہو۔۔ ایک محاورہ تو سیدھا بولا نہیں جاتا ۔۔ میں سٹپٹا گئی۔۔۔ " او ہو ! ایک تو اماں نے میری ناک میں دم کر دیا ۔۔ اور دوسرے تم نے آتے ہی میری ناک پر حملہ کر دیا ۔۔ میری تو' ناک ہی نہیں رہی" اپنے ناک کو دیکھو جیسے ناک پر کسی نے پہیہ" پھیر دیا ہو۔۔ میں بھی اس کی بہن تھی اس سے پیچھے نہ رہی۔۔ " اوہو باجی ! کیا بات ہے آج تو آپ کا غصہ آپ کی ناک پر دھرا ہے کہیں پھر کسی سے ناک سے لکیریں کھنچوانے کا پروگرام تو نہیں۔۔۔۔۔۔ ویسے تمہارا قصور نہیں ہمارے ملک میں ہر بندہ وہی کام کرتا ہے جو وہ جانتا نہیں۔۔ میں نے غور کیا یہ کیا ہوا ! اماں نے آتے ساتھ ہی ہمیں غضبناک نگاہوں سے گھورا عینک ان کی ناک پر دھری تھی اور پھر خوفناک انداز میں باتیں سنا گئیں اور پھر خطرناک طریقے سے دھمکی بھی دے ڈالی ارے یہ ساری مصیبتیں ایک اکیلی بیچاری ناک پر ہی کیوں...
اسکول کھول دیں
جولائی کے وسط کے بعد گرمی کی شدت پہلےجیسی نہیں رہتی- ساون کے آتے ہی بے وقت بارشیں کسی قدر موسم کی شدت میں کمی لے آتی ہیں ۔ تمام والدین کا فارم 47 کی حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ پیٹرول، بجلی ،گیس اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں بے شک کم نہ کریں کیونکہ وہ تو ویسے بھی آپ لوگوں سے کم ہونی ہی نہیں بلکہ ان کی قیمتیں مزید بڑھا دیں کیونکہ وہ تو آپ نے اپنے آئی ایم ایف کے آقاوں کی خوشنودی کے لیے بڑھانی ہی ہیں بس صرف اس مظلوم قوم پر ایک رحم کریں کہ خدا کے لیے سکول کھول دیں والدین بجلی کے بل دیکھ کر اتنے پریشان نہیں ہوتے جتنے ساری رات جاگتے اور دن میں سوتے بچوں کو دیکھ کر ہوتے ہیں
آخر والدین کریں بھی تو کیا دادا دادی، نانا نانی کے بھی ہوئے۔ خالہ، پھوپی ، ماموں سب کے ناک میں دم کر لیا۔ کزنوں کے گھر جا کے ان کو گھر بلا کے ان ڈور گیمیں جیسے لڈو کیرم آؤٹ ڈور گیمز کرکٹ وغیرہ آن لائن گیمیں پب جی وغیرہ بھی کھیل لی ۔ بڑی عید کی دعوتیں بھی ہو گئیں، شہر کے تفریحی مقامات بھی دیکھ لیے۔ ناران کاغان کے لوگ بھی تنگ پڑ گئے پھر بھی اسکول نہیں کھلے یہاں تک کہ بچے خود بھی تنگ پڑ گئے کہنے پہ مجبور ہو گے کہ اسکول کھول دیں۔
اس لیے کہ نالائق بچے ماں باپ سمیت تمام بڑوں کے تانے سن سن کے تنگ آ گئے ہیں اور فرمانبردار احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے تنگ پڑ گئے ہیں لڑکیاں کچن میں اور لڑکے والد کی دکان پر یا پھر گھر کا سامان لانے کے لیے بازاروں میں گھومتے رہتے ہیں ۔ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ تو چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں اور اسکول کھلنے پر نہ والدین زیادہ خوش ہوتے ہیں نہ اساتذہ سب سے زیادہ اسکول مالکان خوش ہوں گے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ہمارا رویہ ہی غیر پڑھا لکھا ہے والدین اسکولوں کی فیسیں ادا نہیں کرتے اور ان کو اساتذہ کو تنخواہیں دینے جو کہ خود ایک مظلوم طبقہ ہے اور بلڈنگ کرائے دینے پہ مشکلات آتی ہیں۔
اسکول کے بند رہنے میں سب سے اہم کردار حکومتی بے حسی کا ہے چھٹیوں کا تعین ضلع بلکہ شہر کی سطح پر ہونا چاہے اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے ٹیچر بھی بہت خوش ہیں کہ تنخواہ مل رہی ہے اسکول بے شک بند ہی رہیں حیرانگی اس بات کی ہے کہ یہ اپنے بچوں کو گھروں میں کیسے سنبھالتے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ ان سے اس موسم میں مردم شماری کا کام لیں دیکھیں اگلے دن کیسے چھٹیوں کے ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں بہرحال حکومت کو چاہیے کہ گرمی کی شدت میں کمی کے ساتھ ساتھ اسکولوں کو کھول دیں ۔ بورڈ کلاسز کو کم سے کم سمر کیمپ کی اجازت ہو تاکہ وہ بہتر تیاری کر سکیں اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ خود اپنی زندگی میں اور اپنے بچوں کی زندگی میں ترتیب...
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...