اعتکاف کامقصد دنیا سے وقتی طور پر تعلق توڑکر اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے اس سے اس کی محبت ، رحمت اور ہدایت مانگنا ہے، شیطان کی فتنہ انگیزیوں سے بچنے کی دعا کرنا ہے، دنیا و آخرت کی بھلائیاں وعافیت مانگنا ہے، اس کے پسندیدہ بندوں کی صف میں شامل ہونے کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی اتباع وپیروی کی دعا مانگنی ہے۔ اس عمل کی کوشش کی دعا کرنا جو زندگی میں قول وعمل کو درست رکھنے اور اللہ کی قربت کا وہ احساس جو تنہائی میں بھی تنہا نہ رہنے دے۔ اعتکاف درحقیقت ایک سنہری موقعہ ہے اللہ منانے اور اپنی غلطیوں پر نادم ہوکر اللہ سے دوستی کرنے کا نا م ہے۔ اللہ سے دوستی کے لئے خلوص، محبت، وفاداری ، ایمانداری اور ایثار وقربانی کا جذبہ شرط ہے۔ کیونکہ ایک مضبوط اور پائیدار دوستی کی ڈور کو قائم رکھنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ تعلق دن بہ دن بڑھتا ہی رہے۔
ایسی ہی دوستی اللہ سے کرنے کا موقعہ رمضان کا مہینہ ہے۔ اس کی خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف کریں اور اس کی طاقت اور اپنی کمزوریوں پراللہ کا ساتھ اور اس کی مدد مانگیں۔کیونکہ جب ہم کسی ایسی معتبر اور خاص ہستی سے ملنے کے خواہش مند ہوتے ہیں تو ہر وہ طریقہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہماری طاقت واستطاعت سے بڑھ کر ہو کیونکہ ایک ہی لگن ہوتی ہے کسی طرح بھی اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوجائے۔
بس یہی وہ سنہری اور قیمتی موقعہ اللہ خود فراہم کردیتا ہے کہ کون ہے جو اس موقعہ سے فائدہ اٹھاکر اس کی قربت کا طلبگار بن کر اس کے در پر سوالی بن کر آتا ہے ۔ لہذا یہی وہ انمول گھڑیاں ہیں جن میں ساری دنیا سے تعلق توڑ کر اس سے وفاداری کا عہد کرنا ہے ، اس کو یقین دلانا ہے کہ ہم بہت کمزور، بے بس ہیں، بار بار راستہ بھٹک جاتے ہیں ہم اس کی مدد کے بغیر ناکام ونامراد ہیں۔
اللہ کو منانے کے لئے گن گن کر اس کی تعریف نہ کریں کیونکہ پھر ساری توجہ اسی بات پر مرکوز رہتی ہے ہے کہ کتنی رکعتیں پڑھیں ، کتنی تسبیح پڑھیں، اصل چیز توجہ ، یکسوئی اور اخلاص ہے اس کے لئے کوئی پیمانہ نہیں ہوتا کبھی ایک آنسو زندگی بھر کےگناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور کبھی ساری زندگی کی عبادت ایک معمولی نظر آنے والی غلطی سے ضائع ہو جاتی ہے۔
لہذا اللہ کو راضی کرنے اور اپنے گناہوں کی معافی اور کوتاہیوں پر شرمندگی کے لئے دل کی گہرائیوں اور خلوص کے ساتھ اس سے التجا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو دکھاوے اور ریاکاری سے پاک ہو کہ وہ ہمیں ہماری کوتاہیوں پر معاف کردے۔ وہ ایسا بادشاہ ہے جسے اپنے بندوں کامعافی مانگنا بہت اچھا لگتا ہے اور معاف کرنے میں دیر نہیں لگاتا ۔
اعتکاف اس کا نام نہیں ہے کہ قرآن کی تلاوت کریں اور گن گن کر نفلیں پڑھیں ۔ اعتکاف کا مقصد اپنی کوتاہیوںپر شرمندہ ہوکر معافی مانگنے کا موقعہ ہے، آئندہ زندگی کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں گزارنے کی درخواست کو منظور کرانے کی التجا کے لمحات ہیں اس کے لئے وہی طریقہ استعمال کریں جیسے ماں باپ سےکسی بات کو منوانے کی ضد کی تو منواکر ہی رہتے ہیں ، کبھی رو کر ، کبھی بھوک ہڑتال کرکے، کبھی بیمار پڑ کر جب تک بات مان نہ لی جائے کوئی اوربات کرنی ہی نہیں ہے۔
ساری توجہ سارا دھیان اس کتاب کے پیغام کو سمجھنے میں لگا دیں جو ہمارے ہی لئے ہے مگر ہمیں کبھی سننے اور سمجھنے کا موقعہ ملا نہ فرصت ملی۔ یہ اعتکاف ورزش کی طرح ترتیب وار ، گنتی کرکے تعداد پوری کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ ہر چیز سے بے نیاز ہوکر ایک اللہ کو راضی کرنے کا موقعہ ہے اور اس کے لئے صرف طلب ، چاہت اور وفا کے جذبے کی ضرورت ہے ۔ رو رو کر اللہ کو منائیں ، ضدی بچہ کی طرح تڑپ تڑپ کر روئیں اس کو اس کے بہتری ناموں سے پکار یں ، اپنی بے بسی پر اس کی طاقت کا اعتراف کرکے اپنی لاچاری وکمزوری کا اظہار کرکے اس کے پیغام (قرآن ) کو سمجھنے کی کوشش کریں اور عمل کرنے کا پختہ عہد کریں۔
دس دن ایسے گزاریں کہ آنے والی زندگی بدل کر رہ جائے دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا کی طلب نہ رہے طلب ہو تو صرف اپنے مالک کی رضا کی ہو ۔ اعتکاف یکسوئی کے ساتھ اللہ کو منانا ہے اپنا آپ مٹانا ہے ۔پھر ایک نئی زندگی جگانا ہے ۔ مقصد ندامت کے ساتھ اللہ کے دربار میں حاضرہوکر آخرت کی زندگی کے لئے نیک عمل کی ہدایت اور استقامت کے ساتھ صراط مستقیم پر گامزن رہنےکی طاقت و صلاحیت مانگنا ہے اس کے لئے کسی فارمولے یا اصول کی نہیں بلکہ سچائی وصداقت کے جذبہ کی ضرورت ہے جو سادگی و بردباری اور عزت واحترام کے ساتھ اپنے آقا اور بندے کے رشتہ کا تقاضہ ہے اس کا خیال رکھتے ہوئے بلاجھجک ہر انداز سے مانگیں ۔ اس کے لئے نہ کسی زبان کی قید ہے نہ تعداد کی ۔