گھر کا سارا سامان ادھر سے ادھر پھیلا ہوا تھا۔ رمضان کی آمد ہونے کو تھی۔ بٹ ہاؤس میں ہر طرف کام چل رہا تھا۔ رمضان آنے کا مطلب تھا ہر تھوڑے دن بعد افطار کی دعوتیں۔ ہمیشہ یہاں ایسا ہی ہوتا تھا پورا رمضان مہمانوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا اور ایسا کیسے ممکن تھا کوئی بٹ ہاؤس کے فرنیچر اور گھر کی نئی بناوٹ سے متاثر ہوئے بغیر واپس جائے۔
اس بار بھی رمضان سے پہلے ایک طرف پینٹ کا کام چل رہا تھا، تو دوسری طرف گھر کا سارا سامان تبدیل کر کے جدید فیشن کے مطابق نیا لایا جارہا تھا۔ پردے بھی پینٹ کے مطابق نئے لگائے جارہے تھے اور ڈرائنگ روم کو بھی مزید بدل کر خوبصورت سیٹنگ کے ساتھ سجایا جا رہا تھا۔
“سنیہ جلدی کرو۔ کتنا کام ہے۔ کچھ دن رہ گئے ہیں رمضان میں۔ کتنی شاپنگ کرنی ہے آج۔” سلیحہ بیگم اپنی بیٹی کو بلا رہی تھی۔
“جی آگئی۔” سنیہ جلدی سے نکلی۔
ان دونوں نے پہلے گھر کا سامان لیا۔ چھوٹا سا کنبہ تھا ان کا لیکن پھر بھی سامان بہت زیادہ تھا۔ اب وہ دونوں اپنی شاپنگ کے لیے گئی تھی۔
“ماما! میں نے عید کے لیے بہت شاپنگ کرنی ہے۔” سنیہ بولی۔
“اچھا لے لینا۔”
ان دونوں نے عید کے علاوہ رمضان کے لیے بھی ڈھیر سارے کپڑے جوتے اور بقیہ چیزیں لیں۔ ساری چیزیں مہنگے اور مشہور برانڈز کی لی۔
*****
آج پہلا روزہ تھا۔ سنیہ اور زید نے ساری رات جاگ کر موویز دیکھیں۔تہجد کی اذانیں ہوئیں، فرشتے پوری دنیا میں پھیل گئے، پرفسوں ماحول ہوگیا، لیکن وہ دونوں ٹی وی میں غرق رہے،اور وہ برکتوں والا وقت فضول میں گزار دیا۔
اگلے دن جب روزے کا سارا فائدہ، ساری برکتیں سب کچھ ختم ہو کا تھا تب وہ جاگے، انھیں نمازوں کی کوئی ہوش نا تھی۔ اب ان کی نظریں گھڑی کی سوئی پر تھی کہ کب روزہ کھلنے کا الارم بجے اور وہ افطار کریں۔افطار میں بہترین انتظام تھا۔ ڈھیر سارے اقسام کے کھانے بنائے جا رہے تھے۔
رمضان ایسے ہی گزر رہا تھا ہر دوسرے دن افطار پارٹی، اور سارا دن سونا۔
*****
سنیہ کو آج اپنی ایک دوست، صبا کی طرف جانا تھا۔ وہ خوبصورت فراک کے ساتھ خوب تیار ہو کر گئی۔
دوست ان جتنی ہی امیر تھی لیکن اس نے بالکل سادہ سی شلوار قمیض کے ساتھ دوپٹہ لیا ہوا تھا۔ کھر میں پر فسوع، سکون والا ماحول تھا۔ کھانے بھی سادہ سادہ بن رہے تھے۔ صبا سارا کام خود کر دہی تھی، بلکہ سب ہی اپنا اپنا کام خود کر رہے تھے۔ اس کی جگہ سنیہ ہوتی وہ تو ہاتھ تک نہ ہلاتی۔ نماز اور قرآن کی باتیں تھی۔ اس کی دوست کے گھر وہ سارا انتظام دیکھ کر حیران ہی رہ گئی۔
وہ عصر کے وقت گئی تھی۔ تو وہ لوگ نمازِ عصر کی تیاری کر رہے تھے۔صبا نے سنیہ کو بھی کہا۔
“آؤ نماز پڑھیں۔”
“نماز؟” سنیہ نے پوچھا۔
“ہاں آجاؤ نماز پڑھیں، چلو وضو کریں، سب انتظار کر رہے ہیں۔” صبا نے کہا۔
سنیہ شرمندگی سے اٹھی اور اس کے ساتھ چل دی۔ اس نے کہا
“صبا تم پہلے وضو کرو۔”
صبا نے وضو کیا، سنیہ نے اسے غور سے دیکھا اور وضو کیا، آخری بار اس نے کب وضو کیا تھا؟ اسے سوچنے پر بھی یاد نا آیا، شاید بچپن میں قاری صاحب سے پڑھتے ہوئے۔
اس نے سب کو دیکھ کر نماز ادا کی۔ نماز کے بعد گھر کی عورتیں باورچی کھانے میں گئیں جبکہ اس کی دوست کے بھائی کی تلاوت پورے گھر میں گونج رہی تھی۔
وہ بہت حیران تھی، لیکن یہ سب اسے اچھا لگ رہا تھا۔ اسے بہت سکون مل رہا تھا۔
اس کے گھر میں آج تک نماز کا اہتمام نہیں ہوا تھا۔ اس سب میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ ماحول ہی ایسا تھا۔ اس کے ماں باپ نے ماحول ہی ایسا دیا تھا۔ماں باپ نے بچپن میں قاری صاحب لگوا دیے، بس جب وہ آتے تھے تو ہی سپارہ پکڑا جاتا، اس نے تو شاید ایک مرتبہ بھی قرآن مکمل نہیں کیا تھا، اس کو اس سب کا علم نہیں تھا۔ماں باپ نے کبھی خود گناہ ثواب کے بارے میں نہیں بتایا تو اولاد کو کیسے پتا لگے گا۔ جب گناہ عام ہو جائے تو گناہ گناہ نہیں لگتا۔
*****
افطار کا انتظام انھوں نے چٹائی پر کیا تھا۔ وہ بھی نیچے بیٹھ گئی۔ ان سب نے روزہ کھجور سے کھولا، اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ نماز ادا کر کے انھوں نے باقی کی افطار کی۔ سنیہ بہت حیران تھی، لیکن اسے اچھا لگ رہا تھا۔ اس کے بعد سنیہ کی امی نے تلاوت بمعہ ترجمہ سنایا وہاں اسے احساس ہوا کے روزے کا کیا حکم ہے اور وہ کیسے گزار رہے ہیں۔ اور پھر زکوة کے احکام۔۔
اس کا دماغ ادھر ہی اٹک گیا۔ پھر انھوں نے عشاء کی نماز کے بعد بیس رکعت تراویح ادا کی، اور پھر وہ گھر کے لیے نکل آئی۔
*****
گھر آئی تو کچھ دیر بعد اس کے پاپا کی طبیعت بہت خراب ہوگئی۔ اس کے دماغ میں زکوۃ کے احکام چلنے شروع ہوگئے۔ وہ باہر نکلی رات کا ٹائم تھا اس لیے بمشکل ایک ہی سڑک کے کنارے فقیر بیٹھا ملا اس نے اسے کافی پیسے دیے اور واپس آ گئی۔ اس کے پاپا کی حالت سنبھل چکی تھی۔ ڈاکٹر نے تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز بتایا تھا۔
*****
اس کے گھر کا ماحول وہی تھا، سب وہی تھا جو ہمیشہ سے رہا تھا،مگر وہ بدل گئی تھی۔ اس کے گھر کے ماحول اور صبا کے گھر کے ماحول میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ صبا کے گھر کا ماحول خوشگوار، سکون دہ تھا،جبکہ اس کے اس کے گھر میں یہ سب نہیں تھا، اس لیے اس کا دم گھٹنے لگا تھا، اس کو بار بار صبا کے گھر کا ماحول یاد آجاتا، وہاں کا سکون، وہاں کا مزا۔وہ نماز پڑھنے لگی تھی، اور وہ سارے کام کرنے کی کوشش کرتی جو اس نے صبا کے گھر دیکھے تھے تاکہ وہی سکون وہی مزا وہ دوبارہ لے سکے۔
*****
آج وہ ظہر کے بعد باہر نکلی۔ اس کی گاڑی کی کھڑکی پاس فقیر کھڑا ہوگیا اس نے اسے پیسے دیے۔ وہ مارٹ کی طرف جارہی تھی۔ وہاں جا کر اس نے راشن بیگ بنوائے اور کچی آبادی کی طرف گئی۔ وہاں جا کر بیگز بانٹے اس کے بعد وہ گھر لوٹ آئی اب وہ کافی سکون محسوس کر رہی تھی۔
*****
سلیحہ بیگم اپنی بیٹی میں یہ بدلاؤ دیکھ کر بہت حیران تھی، ان کی بیٹی اب سارا دن سو کر اور ساری رات فلمیں دیکھ کر نہیں گزارتی تھی بلکہ اب وہ نماز پڑھتی تھی، کبھی قرآن کی تلاوت کرتی، کبھی اس کا ترجمہ پڑھتی، یہ سب دیکھ کر سلیحہ بیگم بہت حیران تھی۔
ان سب چیزوں سے زیادہ حیران ان کو اپنی بیٹی کے چہرے پر نظر آنے والے سکون سے ہوئی۔ وہ سوچ میں پر گئی کہ اتنا سکون کیسے ہے۔
سلیحہ بیگم انھیں سوچوں میں گم تھی جب تک ان کی بیٹی ان کو اپنی اسی دوست کے گھر نا لے کر آئی۔
*****
وہ اپنی اماں کو لے کر صبا کی طرف گئی، صبا کی ماما درس دیتی تھیں۔جب سلیحہ بیگم وہاں گئی تو اتنا مختلف ماحول دیکھ کر حیران رہ گئی، لیکن انھیں یہاں وہی سکون نظر آیا جو وہ پچھلے کچھ دنوں سے سنیہ کے چہرے پر دیکھ رہی تھی۔
صبا کی ماما نے درس دیا اور رمضان کی اہمیت اور اسلام کے ارکان کے بارے میں بتایا، اب سلیحہ بیگم کی سمجھ میں آیا تھا۔ رمضان کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ صرف گھر سنوارا جائے، خریداری کی جائے، بلکہ ثواب کمایا جائے۔
*****
انہوں نے گھر آتے ہی اللہ سے توبہ طلب کی اور اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالنا شروع کردیا۔ اپنے بیٹے اور شوہر کو بھی سمجھایا۔ آخری عشرہ چل رہا تھا عید سر پہ تھی۔ مگر اب بٹ ہاؤس میں عید کی تیاری دوسری طرح کی جارہی تھی۔ ان کا بیٹا اور شوہر رات تراویح پڑھ کر مسجد سے آتے اور سو جاتے اور تہجد کے وقت اٹھ کر نماز ادا کرتے۔اب بٹ ہاؤس میں بھی صبا کے گھر والا سکون تھا۔ سلیحہ بیگم اور سنیہ نے کام والی ماسی کو عید کی چھٹیاں دے دیں تھیں۔ ساتھ میں اسے کچھ پیسے بھی دیے تھے جبکہ سنیہ ہے اپنے عید کے خریدے گئے سوٹوں میں سے دو سوٹ بھی اسے دیے تھے۔
**ختم شد**