آج کی دنیا میں لوگ “سیل” کے لفظ سے اچھی طرح واقف ہیں، جہاں دکاندار مال کی قیمتیں کم کردیتے ہیں۔
یہ کون سا موقع ہے کہ جنت کے سارے دروازے کھول دئیے گئے ہیں اور فرشتے آواز لگا رہے ہیں: ” اے خیر کے طالب آگے بڑھ اور بُرائی کے طالب رُک جا”. (ترمذی، ابنِ ماجہ)
یہ کون سے دن ہیں کہ رحمت، مغفرت اور جنت کی سیل لگی ہے، آوازیں دے دے کر بلایا جا رہا ہے کہ آؤ اپنے گناہ معاف کرالو، آؤ کہ شیاطین باندھ دئیے گئے ہیں۔
ارے ہاں! یہ تو رمضان المبارک کے دن ہیں، یہ تو برکت اور رحمت کی راتیں ہیں۔ چلو کہ رمضان المبارک کی ساعتیں قریب آنے لگی ہیں۔ کامیاب وہ ہیں جو ان ساعتوں سے زیادہ سے زیادہ وقت اجر سمیٹنے میں صرف کردیں۔
اچھا آپ کے ذہن میں رمضان کا نام سنتے ہی کیا آتا ہے؟ یہی ناں کہ سحر کے وقت ایک ساتھ سحری کرنا، صبح سے شام تک بھوک پیاس کو ترک کر دینا اور پھر افطاری، پکوڑے، سموسے اور فروٹ چاٹ وغیرہ ہیں ناں؟ سب سے پہلے ذہن میں یہی آتا ہے ناں؟ مجھے بھی کچھ ایسے ہی خیالات آتے ہیں۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن میں رمضان کے حوالے سے فرمایا ہے:
ترجمہ: “رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لئے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا جو شخص اس مہینے کو پائے اسکو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔”(سورۃ البقرہ)
اس آیت سے تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان المبارک قرآن پاک کی سالگرہ کا مہینہ ہے۔ اس مہینے قرآن پاک پڑھا بھی جاتا ہے اور سُنا بھی جاتا ہے۔ لیکن کیا ہم جو پڑھتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں؟ رمضان المبارک کا مہینہ مشقت اور محنت سیکھنے کا مہینہ ہے، صبرو ضبط جیسی اخلاقی صفات پیدا کرنے کا مہینہ ہے۔ اس رمضان کم از کم اس خوابِ غفلت سے خود بھی جاگیں اور دوسروں کو بھی جگائیں، اُمت کو اس کا فریضہ یاد دلائیں۔
روزے کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
ترجمہ: ” اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔”(سورۃ البقرہ)
روزہ تربیت کا ذریعہ ہے۔ “آپ جب کسی شخص کے پاس امانت رکھواتے ہیں تو گویا اس کی ایمانداری کی آزمائش کرتے ہیں۔ اگر وہ اس آزمائش میں پورا اُترے اور امانت میں خیانت نہ کرے تو اس کے اندر امانتوں کا بوجھ سنبھالنے کی اور زیادہ طاقت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ زیادہ امین بنتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی مسلسل ایک مہینہ تک روزانہ بارہ بارہ چودہ چودہ گھنٹے تک آپ کے ایمان کو کڑی آزمائش میں ڈالتا ہے اور جب آپ اس آزمائش میں پورا اترتے ہیں تو آپ کے اندر اس بات کی مزید قابلیت پیدا ہونے لگتی ہے کہ اللہ سے ڈر کر دوسرے گناہوں سے بھی پرہیز کریں” ( مولانا مودودی رحمتہ اللہ)
تقویٰ کیا ہوتا ہے؟
تقویٰ سے مراد دل و دماغ میں اللہ کا گہرا خوف پیدا کرنا ہے، اس بات کا یقین ہونا کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے، ہماری ایک ایک حرکت کی نگرانی فرمارہا ہےاور اس کے اہلکار ( فرشتے) ہماری ایک ایک لمحے کی ویڈیو بنا رہے ہیں۔ روزِ قیامت یہ فلم کی طرح ہمیں دکھائی جائے گی تو انسان چلّا اُٹھے گا کہ کون تھا جو میری زندگی کی ایک ایک لمحے کو اس طرح محفوظ کرتا جارہا تھا۔ کورونا کی صورتحال کے سبب ایک نئے جذبے سے رمضان کا مہینہ گزارنے کا عزم ضروری ہےجو افراد کے اندر حبِ الٰہی، فکرِ آخرت، اور جہاد بالقرآن کی ایک روح پھونک دے۔ اُمت کو پھر سے کھڑا کردے، اسکے ایمان کی آبیاری کرے، وہ روزے اور قرآن کی مدد سے اپنے اندر نیا انسان دریافت کرلے۔