خاندانی نظام کا شیرازہ آہستہ آہستہ نامحسوس طریقے سے بکھر رہا ہے اس لیے آئے دن شادی شدہ خواتین کی خود کشی کی خبریں میڈیا میں بلخصوص یو ٹیوب میں مرچ مصالحہ لگ کر گردش کررہی ہیں۔آج کے مادیت فتنہ کے دور میں ہر طبقہ معاشی پریشانی کا شکار ہے کسی کوروٹی کسی کو پیسے کی فکر کہ اب کیسے اخراجات پورے کئے جائیں؟ کیونکہ ہمارے منہ کو جو دنیاوی من سلوی لگ گیا ہے اس کا حل یہی نکالتے ہیں کہ چوری ڈاکہ رہزنی اور ناجائز ذرائع آمدنی استعمال کر کے پیٹ کا دوزخ بھرا جائے چاہے ابدی زندگی دوزخ کی ایندھن میں جلتے رہیں۔
ہمارا ایمان اس حد تک کمزور ہوگیا ہے دنیا کا خوف غالب آگیا ہے میاں بیوی بچے ماں باپ اور سسرالی خاندان سب کا خوف بدنامی کا خوف اور ناراضگی پر دنیاوی خوف اور ناراضگی غالب آجاتی ہے آخر کیوں؟
ہاں اس کا نفسیاتی ذہنی دماغی جذباتی انتشار تناٶ اور دباٶ بڑی وجہ بنتا ہے تو اس کا دماغ الجھاٶ اور تناٶ میں ہوتا ہے یا دوسری طرف قرضوں سے گھر چلانے کی صورت میں اسے اتارنے کی پریشانی میں گھراور گھروالوں سےلاپرواہی اور غفلت برتنا شروع کردیتا ہے بیوی سے جذباتی لگاٶ تو دور کی بات ہمدردی کے دو بول بھی نہیں کہنا چاہتا اور بچے بھی ماں باپ سے دور ہو جاتے ہیں کیوں کہ ایسے ماحول میں ہرفرد کو پیار محبت تسلی کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت مرد کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کو قوام بنا کر بھیجا گیا ہے اس کی ذمہ داری بھی یہی بنتی ہے کہ ہر حال میں باخبررہے کہ میری شریک حیات ایسے حالات میں کیسے اور کس ذہنی دباٶ سے گزر رہی ہے دو بول ہمدردی پیارتسلی کے اس کی زندگی کی رمق ڈال دیتے ہیں اور یہی زندگی کی رمق اس کے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔
خاندان ایسی زنجیر ہے میاں بیوی بچے گھر میں چھوٹی سے چھوٹی خوشی، غمی، غلطی فہمی آپس میں شیئر کرنا چاہیئے نا کہ ڈر خوف سے ایک دوسرے سے چھپاتے رہیں۔اس طرح دوریاں اور غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اورانسان اپنی زندگی ختم کرنے کے درپے ہوجاتا ہے۔
سب سے اہم پہلو ہم اپنے دین سے اتنے دورہوگئے ہیں کہ لوگوں کوخدا مان بیٹھے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سکون دیں گےاور ہر مشکل کا حل نکالیں گے۔اسی میں شیطان صفت انسان اپنا مفاد حاصل کر لیتے ہیں مشکلات میں بلخصوص اللہ سے قربت پیدا کریں اور گھر والوں کو بھی کروائیں مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں اور غم بانٹیں۔