رشتوں کی کمزوری کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے انہیں اہمیت دینا چھوڑ دیا ہے۔ اس میں صرف عورت ہی قصوروار نہیں ہے بلکہ مرد بھی برابر کا شریک ہے۔
کیونکہ جب اللہ نے مرد کوکفیل بنایا ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ کفالت کے ساتھ ساتھ اپنے ان حقوق وفرائض کا بھی خیال رکھے جو اس پر اسی اللہ نے عائد کئے ہیں جس نے اسے عورت کا محافظ بنایا ہے۔ ہر مرد کو یہ بات تو اچھی طرح یاد رہتی ہے کہ وہ عورت کا قوام ہے لیکن یہ بھول جاتا ہے کہ اسے یہ برتری کس وجہ سے دی گئی ہے۔
اگر فیملی میں کسی سے کوئی اختلاف ہوجاتا ہے تو زیادہ تر باپ ،شوہر ، بھائی یا بیٹا گھر کی عورتوں پر پابندی عائد کردیتا ہے کہ وہ بھی اس سے کوئی تعلق نہ رکھے ۔ جس کی وجہ سے وہ رشتہ اور کمزور ہوجاتا ہے اور غلط فہمیاں بڑھ جاتی ہیں۔ اسی طرح اگر عورت کو کسی پر غصہ آجائے تو یہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر بھی اس سے نہ ملے چاہے وہ اس کی ماں ہی کیوں نہ ہو اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو میاں بیوی کے آپس کے تعلقات میں تلخیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔
یہی وہ بنیادی خرابی ہے جو نہ صرف ایک خاندان کا توازن بگاڑنے کا سبب بنا بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بدنظمی پھیلانے اور برائیوں کو پھلنے پھولنے کا ذریعہ بھی بن رہا ہے ۔ کیونکہ ہم برائی کرنے والے کو تو نشانہ بنالیتے ہیں مگر برائی کرنے کی وجہ جاننے یا اسے ختم کرنے کی نہ تو کوشش کرتے ہیں اور نہ اس کار خیر کو کرنے والے کا ساتھ دیتے ہیں۔
یہی وہ سچ ہے جس کو قبول کرنے سے ہم ڈرتے ہیں اوراس حقیقت سے آنکھیں چرانا ایسا ہی ہے جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر یہ سوچ کر اپنی آنکھیں بند کرلےکہ وہ بلی سے بچ جائے گا یا شطر مرغ کسی خطرے کو دیکھ کر ریت میں منہ چھپاکر یہ سمجھ لے کہ خطرہ ٹل جائے گا اور وہ بچ جائے گا تو یہ عقلمندی یا ہوشیاری نہیں ہے بلکہ بیوقوفی اور حماقت ہے۔
ہمارے معاشرے کے افراد بھی ایسے ہی طرز عمل کو اختیار کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں پھیلتی ہوئی برائیوں کے نہ تو ہم ذمہ دار ہیں اور نہ ان کو ختم کرنا ہمارے اختیار میں ہے ۔ اگر دنیا کا نظام اسی تصور کے ساتھ چلتا تو آج نہ تو اسلام کی روشنی ہم تک پہنچتی اور نہ اللہ کی وحدانیت کا تصور ہمیں ایک اللہ کی عبادت کرنے والا بناتا۔رشتوں کو جوڑنا مرد اور عورت دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ رشتوں اور محبتوں کو قائم رکھنے کےلئے ضروری ہےکہ چند باتوں لپیٹ کاخیال رکھیں۔
جب کوئی ایک شخص غصہ میں ہو تو دوسرے کو تحمل کے ساتھ معاملے کو سنبھالنا چائیے تاکہ رشتوں میں کوئی تلخی پیدا نہ ہو۔ کیونکہ بعض اوقات بہت چھوٹی سی غلط فہمی بہت بڑے فساد کا سبب بن جاتی ہے۔غیبت جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ چب کوئی آپ سے کسی کے بارے میں کوئی برائی کرے تو آپ اس کی کوئی بھی اچھی عادت کا تذکرہ کرکے اس کے منفی چذبات کو مثبت رخ کی طرف پھیرنے کی کوشش کریں ۔رفتہ رفتہ لوگ آپ سے دوسروں کی برائی کرنا چھوڑ دیں گے بلکہ دوسروں کو بھی یہ پیغام پہنچائیں کہ بھئی ان کے سامنے کسی کی برائی نہ کرنا اور یہ وہ نیکی ہے جس کا اجر اللہ کے گھر میں بے حساب ہے۔
رشتوں کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ دل ودماغ میں وسعت پیدا کریں لوگوں کی برائیوں کے بجائے اچھائیوں کو پھیلائیں تاکہ جن کے دلوں میں کدورتیں یا نفرتیں ہوں وہ رفتہ رفتہ ختم ہوکر محبت کو پروان چڑھائیں اور اس نیکی کے درخت کی آبیاری کی بنیاد رکھنے والے کیوں نہ ہم کریں شاید اس طرح ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوجائے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہصالح لوگ نیکی میں سبقت کرنے والے ہوتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ برائیوں کو نیکی سے دور کرو آئیے آج سے ہم اس نیک کام کا آغاز کرتے ہیں انشاء اللہ اللہ ہمیں ضرور کامیاب کرے گا ۔
ضرورت صرف حوصلہ اور استقامت کے ساتھ عمل کرنے کی ہے اور اس راستے میں آنے والی ہر مشکل اور رکاوٹ کو آزمائش سمجھ کر اللہ سے مدد مانگنے اور یقین کی ضرورت ہے کیونکہ ہر نیکی کے کام میں اللہ ساتھ دیتا ہے اور جس کے ساتھ اللہ ہو وہ کبھی ناکام ہو ہی نہیں سکتا۔