ہم جس کائنات میں رہتے ہیں اسے ملکی وے گیلیکسی کہتے ہیں یہ اتنی بڑی ہے کہ اس کے آخری سرے پر پہچنے کے لیے 3,000کروڑ سال درکار ہونگے ایسی ہزاروں کائناتیں اور ان میں کروڑوں سیارے اور ان میں ان گنت جاندار موجود ہے مگر ان سب کے مالک اور ہمارے رب نے سب سے اعلی درجہ حضرت انسان کو دیا۔
کائنات کی ہر شے ہر مخلوق قدرت کے طے کردہ قانون کے تحت ہی چل رہی ہے ازل سے جو قانون طے کیا گیا ہے یہ اسی کے تحت حرکت کر رہیں ہیں مگر حضرت انسان اور شیطان اپنی من مانی کرنے کا حق رکھتے ہیں وہ بھی اس شرط پہ کہ روز جزا کے دن سب کو ان کے اعمالوں کا برابر حساب چکانا ہوگا برے کے لے برا بھلے کے لیے بھلا۔
مگر پھر بھی اللہ نے انسان کو اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ اس کی أصلاح اور ہدایت کے لیے کئی راستے اور مثالیں متعین کررکھی ہے تاکہ وہ شیطان کے جال میں نہ پھنس سکے اور بھٹکنے سے بچ سکے ۔
گزشتہ دنوں انٹرنیٹ پر ایک کلیپ دیکھا جس میں ریشم کے کیڑے کی لائف سائیکل کے بارے میں بتایا گیا تھا یہ دیکھ کر مجھے مکڑی کے جالے کا خیال کہ کیا عظیم قدرت ہے میرے رب کی جس نے دوحشرات سے ایک ہی کام لیا مگر نوعیت الگ الگ ہے۔
ایک قیمتی اور نایاب اور دوسرا نحوست اور بوسیدگی کی علامت ریشم کا کیڑا شہتوت کے پتے کھا کر 15 سے 30دن میں خوبصورت اور مضبوط ریشم پیدا کرتا ہے جو مقدار میں کم تو ہوتا ہے مگر قیمتی ہوتا ہے جب تک ریشم کا کیڑا اچھی اور کارامد ریشم پیدا نہیں کرلیتا وہ تتلی نہیں بن سکتا ٹھیک اسی طرح جس طرح ایک انسان کو , انسان سے مومن بنے کے لیے اپنے کردار کو اللہ اور اس کے رسولوں کی اطاعت کے سانچے میں ڈھالنا ضروری ہوتا ہےاس کے بنا جنت کا حصول ممکن نہیں ۔
جبکہ دوسری طرف مکڑی کا ریشم یعنی جالا ہے جو دو دن میں کافی مقدار میں بنالیتی ہے مگر نہایت ہی کمزور ہوتا اسی لیے مکڑی اپنے جال میں کافی عرصے تک بھوکی بیٹھی رہتی ہے جب اس کے جالے میں مچھر یا مکھی پھنس جاتی ہے تو یہ اسی سی پیٹ پوجا کرتی ہے اسی لیے اس کے ریشم کو جالا کہا جاتا ہے یہ سست اور کوشیش نہ کرنے والی جاندار ہے قران میں بھی اس کا زکر ملتا ہے العنکبوت میں جس میں مکڑی کے جالے کو کمزور گھر سے تشبہ دی گٸی ہے موجودہ دورمیں بہت کوشیش کی گٸی کہ مکڑی کے ریشم کو مضبوط بنا کر کارامد بنایا جاسکے مگر اب تک اس میں ناکام رہے أخرکار اب ریشم کے کیڑے سے مکڑی کے ریشم کی افزاٸش پر تجربات کیے جا رہے ہیں۔
یہاں میرا مقصد دونوں حشرات کا موازنہ کرنا نہیں ہے بلکہ اپنا محاسبہ کرنا ہے اللہ پاک کی بنائی گئی ہر چیز میں ہمارے لیے ایک مثال اور رہنمائی پوشیدہ ہے تاکہ ہم اپنی سمت درست رکھے ہماری زندگی ریشم کے کیڑے کی مانند ہونی چاھیے جو اپنے وجود کا مقصد اچھے سے سمجھتا ہو اور اپنی زندگی کی کوشیشیں اس کے حصول میں وقف کرے دوسروں کو فائدہ پہنچانا اتنا چھوٹا سا کیڑا اس قدر قیمتی ہے تو سوچیں ہم کو رب نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے سب سے افضل تو یقینا ہمارا مقصد اور ذمہ داری بھی بہت بڑی ہو گی بندےکی سب سےبڑی ذمہ داری ہے اپنے رب کی اطاعت اپنے رب سے سچی وفاداری اس سے بڑی کوئی ذمہ داری ہو ہی نہیں سکتی جو اطاعت کردار سے ظاہر ہو مگر افسوس ہم ریشم کے کیڑے سے سبق لینے کے بجاے مکڑی کے کمزور جالوں کی طرف متوجہ ہوگیے ہیں اپنی زندگی کو دین کے خوبصورت اور مضبوط حصار سے دور کر کے اپنی مصروفیات اور زندگی کو دنیاوی لذت ,ضرویات,اور چاہت جیسے مکڑی کےجال میں خود کو تبدیل کرچکے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہےکہ ہم اپنے مقصد کو پہچانے ایا ہم ریشم کے کیڑے کی مانند کارامد اور قیمتی بناچاھتے ہے یا مکڑی طرح زندگی بسر کرنا چاہتے جو صرف اپنے فائدے کےمطابق ہی حرکت کرتی ہم کیا ہے ریشم کا قیمتی کیڑا یا مکڑی کا جالا؟