ایک استاد(ٹیچر) اپنے شاگردوں کا ایک انوکھا امتحان لینا چاہتا تھا۔ وہ انہیں درسی کتب کے بجائے ان کی دماغی کیفیت کا ایک حصہ بطور امتحان پیش کرنا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنے شاگردوں کو ایک عام برائی سے خاص انداز میں متعارف کرائے اور انہیں خوشحال زندگی گزارنے کا ہنر سکھائے۔ یہ صرف امتحان ہی نہ تھا بلکہ ایک سوچ، فکر اور نظریہ کو پرکھنا تھا۔ ایک الگ انداز زندگی کا تعارف تھا۔ جسے امتحان کا نام دیا گیا۔
چناچہ استاد محترم نے جماعت میں قدم رکھا تو سناٹا چھا گیا۔ حسب عادت تھوڑی دیر خاموشی کے بعد طلبہ کو مطلع فرمایا کہ آج ان کا امتحان ہے۔ تمام طلبہ کچھ دیر اپنی درسی کتب کی طرف متوجہ رہے ۔ کسی نے پہلے چیپٹر کی اہمیت پر زور دیا تو کسی کے کہا نہیں ! نہیں ! وہ جو تیسرا والا تھا نا، وہ استاد جی نے بڑی تفصیل سے پڑھایا تھا اور اس کی اہمیت بھی بتائی تھی۔
بہر حال آراء مختلف تھیں کہ کون سا ”چیپٹر“ کتنا اہم ہو سکتا ہے۔ لیکن ایک ایسا چپٹر جسے معاشرے کی اکثریت اہمیت نہیں دیتی۔ ایک ایسا چیپٹر جسے روز پڑھا جاتا ہے لیکن اس میں پڑا نہیں جاتا۔ ایک ایسا چیپٹر جو باوجود عمومیت کے خصوصیت کے درجہ تک پہنچ گیا تھا۔جسے یاد کرنے والوں کی تعداد بہت کم تھی۔ جسے عام لوگوں نے محسوس کرنا ترک کردیا تھا۔
آج استاد محترم اسی چیپٹر سے سوال کرنا چاہتے تھے۔ آج وہ اس پر روشنی ڈالنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اسی غرض سے انہوں نے طلبہ کی تعداد کے بقدر چند صفحات ان کی ٹیبل پر رکھ دیے۔ جن پر کچھ سوالات درج تھے۔ استاد محترم نے ایک پرچہ لیا اور اس کو پلٹ دیا اور کہا اصل سوال صفحہ کی پچھلی جانب درج ہے۔جب طلبہ نے پرچہ پلٹا، تو وہ حیران رہ گئے کہ صفحہ کی دوسری جانب کوئی سوال نہیں تھا۔ بلکہ اس صفحہ کے بیچو بیچ ایک کالا دھبہ یا نقطہ تھا۔ طلبہ ورطہ ء حیرت میں ڈوبے سوالیہ نظروں سے استاد محترم کو دیکھنے لگے۔
استاد محترم اپنے طلبہ کی حیرانگی کی وجہ سے بخوبی واقف تھے۔ اس لئے انہیں بڑے شائستہ انداز میں کہا: پریشان مت ہو! آج یہی آپ کا امتحان ہے اور میں چاہتا ہوں اس صفحہ پر جو کچھ آپ کو نظر آئے، اس پر سوچیں اور جو کچھ سمجھ آئے لکھ ڈالیں۔
طلبہ الجھن کا شکار ہو گئے۔ سلجھن کے راہیں ڈھونڈنے لگے۔ آج وہ اپنی زندگی میں ایک ایسا امتحان دینے کا تجربہ کر نے جارہے تھے جسے وہ نہیں سمجھ سکے، ایک ناقابل فہم چیز کا امتحان۔
طلبہ نے غور و فکر کیا کہ اس صفحہ پر ہمیں کیا دکھائی دے رہا ہے۔ سب تفکرات کا جواب بیک آواز ”کالے نقطے“ کی موجودگی تھا۔ یہ کالا نقطہ ہی کوئی ایسی چیز ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر اور سوچا، شاید کچھ اور بھی ہو لیکن کوئی فائدہ نہیں ۔ نظر و فکر کی گنجان آبادی کے چاروں اطراف سے کالے نقطے کی صدائیں سنائی دینے لگی۔ چنانچہ ان صداؤں نے قلم کی نوک کو جنبش دی، تمام طلبہ نے اپنے قلم و قرطاس کو تحریر کے لئے تیار کیا۔اور قلم نے صفحہ کو اول تا آخر بھر ڈالا۔ اور کالے نقطے کی دلنشین تشریحات کاایک تانابانا بندھ گیا۔
پھر رفتہ رفتہ امتحانی وقت اپنے اختتام کوجا پہنچا۔ تمام طلبہ نے اپنااپنا حل شدہ پرچہ استاد محترم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اور انہوں نے ہر طالب علم کا پرچہ پڑھ کر سنانا شروع کر دیا۔ ہر شاگرد نے اپنی تئیں سیاہ نقطے کو سمجھنے کی بھر پور کوشش کی تھی۔ سب طلبہ خاموشی کے عالم میں استاد محترم کے سامنے کسی حتمی نتیجے کے منتظر تھے۔
استاد محترم نے انہیں سمجھانا شروع کرتے ہوئے کہا: آج کے اس امتحان میں مَیں آپ کو کوئی ”گریڈ“ یا نمبر نہیں دینا چاہتا۔ بلکہ اس کے بدلے میں آپ کو سوچنے اور سمجھنے کے لئے کچھ دینا چاہتا ہوں۔
دیکھیں آپ میں سے کسی نے بھی صفحہ کے سفید حصہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا، جبکہ کالانقطہ سب کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ کیا آپ جانتے ہیں؟ یہ ہی کچھ ہماری اصل زندگی میں بھی ہوتا ہے۔ سیاہ دھبوں پر توتوجہ دی جاتی ہے، اگرچہ ان کی مقدار قلیل ہی کیوں نہ ہو، لیکن ان کے چہار جانب چھائی سفیدی جس نے اس کالے دھبے کا گہراؤ کر رکھا ہوتا ہے، اسے بھلا دیا جاتا ہے۔ اور پھر غموں کی وادیوں میں سر گرداں گشت کی جاتی ہے۔
یہ زندگی ہمارے رب کی جانب سے ایک عظیم تحفہ ہے۔ ہمارے پاس زندگی میں خوش رہنے کی کئی وجوہات ہیں۔ ہمارے پاس ایسے کئی طریقے ہیں جنہیں اپنا کر ہم خوش بھی رہ سکتے ہیں اور خوشیاں بھی بانٹ سکتے ہیں۔ اگر ہم ایک دوسرے سے محبت کریں۔ ایک دوسرے کی لغزشوں کو موضوع سخن بنانے کے بجائے انہیں دفنا دیں۔ ایک دوسرے کاخیال رکھیں۔ ایک دوسرے کی مدد کریں۔ لیکن ہوتا کیاہے، صرف سیاہ دھبوں کی آغوش میں جیا جاتا ہے۔ کبھی صحت کے مسائل، کبھی معاش کی تنگی، کبھی زیادتی کی ہوس ، کبھی الجھے ہوئے رشتے ، کبھی حسد کی آگ، کبھی تکبر کی انکساری، اور کبھی غیر اللہ سے بندھی توقعات کا مٹی تلے دب جانا، اور اس کے علاوہ ایک ایسی طویل فہرست جس نے ہمیں بےشمار نعمتوں سے بے رخی پر مجبور کر رکھا ہے۔ جو ہمیں نعمتوں کی موجودگی کا احساس تک نہیں ہونے دیتیں۔
جبکہ ہماری زندگی خدا تعالی کی جانب سے عطا رکردہ نعمتوں سے مالا مال ہے۔ ایسی زندگی کے سامنے سیاہ دھبوں اور کالے نقطوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ لیکن پھر بھی وہ ہمارے ذہنوں پر مسلط رہتے ہیں۔ ہمارے تفکرات کا گھیراؤ کیے ہوئے ہیں۔ اٹھتے ، بیٹھے انہی سیاہ دھبوں کی دھنیں سنی، سنائی جاتی ہیں۔ جن کے شور و غوغا میں نعمتوں کا ذکر کہیں سنائی نہیں دیتا۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی بھی خوشحال گزرے تو جیسے ہر مقصد اور منزل تک پہنچنے کا ہنر اور طریقہ ہوتا ہے، خؤشحال زندگی گزارنے کا بھی ہنر ہے، وہ یہ کہ ہم اپنی نظریں، اپنے نظریات، اپنے افکار کو ان سیاہ دھبوں سے ہٹا کر زندگی کا مشاہدہ کریں۔ ہر اس لمحہ اور نعمت کی قدر کریں جو زندگی نے آپ کو مہیا کر رکھی ہے۔ سیاہ دھبوں کی کالی گھٹاؤں سے نکل کر زندگی کو خدا کی عطا کردہ نعمتوں کی پر نور فضاؤں گزارنا سیکھیں۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔