ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے اسلامی قوانین مکمل طور پر نافذالعمل نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں معاشی، سیاسی، اخلاقی اور دینی معاملات میں بگاڑ ہے اور حق کی مخالفت باطل کے ذریعے سے کی جاتی ہے۔ باطل اس طریقے کو کہتے ہیں جو عدل و انصاف، شریعت، معروف اور سچائی کے خلاف ہو۔ اس روش کے نتیجہ میں معاشرے میں جھوٹ ، خیانت سود، سٹہ، جوا، چوری، اور رشوت جیسے افعال پنپ رہے ہیں جن کو شریعت نے ناجائز قرار دیا ہے۔
خاص طور پر رشوت وہ لعنت جس سے معاشرے میں عدم استحکام اور مایوسی جنم لیتی ہے۔جبکہ اسلام کی بنیاد عدل، توازن اور حق پر ہے ۔کسی کا مال ہڑپ کرنے کو منع فرمایا گیا ہے. قرآن میں اللہ پاک اس بات کو اس طرح فرماتا ہے۔
سورة بقرة آیت 188 “اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا کوئی موقع مل جائے ۔”
اس آیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہمارے ملک اور معاشرے میں یہی ہو رہا ہے۔ رشوت جیسی خطرناک لعنت کا بازار گرم ہے۔اعلی سطح سے لے کر نچلی سطح تک رشوت کھلے عام لی اور دی جاتی ہے۔
اس غیرمنصفانہ طریقہ کی وجہ سے اہل لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں اور نااہل افراد سفارش کی بنیاد پر اعلی عہدوں پر فائز کر دیے جاتے ہیں جس کے پیشِ نظر لوگوں کے گرد مایوسی کا غبار گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خواہ تعلیمی اداروں کا ذکر ہو یا سیاست اور عدالتوں کا سب کا حال یہی ہے۔
سورة بقرة کی آیت کی روشنی میں مختلف پہلوؤں سے اس لعنت کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ کس طرح برائیوں میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ یہ ناجائز طریقے سے دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا ڈرامہ ہے ، اس کی وجہ صاف ہے کہ قانون جو لوگوں کے حقوق کی حفاظت کا ضامن ہے جس کی افادیت کا تمام تر انحصار حکام کی راست روی اور دیانت پر ہے وہی قانون کے اصلی محافظ ہوتے ہیں اگر ان کو کسی ذریعہ سے بددیانت بنایا جائے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اب حقوق بکاؤ مال ہیں جس کے پاس پیسے ہیں وہ انہیں خرید سکتا ہے یہی کچھ ہمارے ملک میں ہو رہا ہے ،رشوت ببانگ دہل دی جاتی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔لوگ پریشان ہیں کہ جائز کاموں کے لیے رقم کہاں سے لائیں۔ یہ برائی عہدیداران کو بد دیانت بنانے کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ہے۔
اس لعنت کی گرم بازاری میں سب سے زیادہ موثر عامل خود معاشرہ ہے جب لوگوں میں دوسروں کے حقوق غضب کرنے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے تو وہ اپنی غرض پوری کرنے کے لیے رشوت کی راہ اختیار کرتے ہیں اس طرح حکام اس برائ میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اس کے ایسے رسیا ہوجاتے ہیں کہ رشوت لیے بغیر خود ان کے واجبی حقوق نہیں دیتے،اس وجہ سے اسلام نے سب سے پہلے خود معاشرے کو اس راہ سے روکا ہے۔ کہ اپنے ہی محافظوں کو خود اپنی بد اعمالیوں سے چور نہ بناؤ ،اور اس معاملے میں اتنی احتیاط برتی ہے کہ حکام کو تحفے اور ہدیے پیش کرنے اور ان کے قبول کرنے کو بھی احادیث سے واضح ہے، پسند نہیں کیا اس لیے کہ یہ بھی رشوت کا ایک چور دروازہ ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ رشوت کا لین دین گناہ ہے اور اس کو سب جانتے بھی ہیں،عقل اس کی گواہ ہے فطرت انسانی اس کی شاہد ہے ۔دنیا کا معروف اس پر حجت ہے تمام ادیان اس کی حرمت پر متفق ہیں۔
یہ برائی جو معاشرہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ہم سب کا فرض ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ اللہ اور رسول اللہ کی بتائی ہوئی تعلیمات کے مطابق ریاست تمام معاملات طے کرے اور عوام کے حقوق کی حفاظت کرے اور سب کو ان کاجائزحق ایمانداری سے دیا جائے۔اللہ پاک معاشرے کو اس برائ سے اور تمام برائیوں سے پاک کر دے۔آمین یارب العالمین۔