اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایات کے لیے قرآن پاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔جب ذہن میں کتاب اللہ آتی ہے تو کتاب کائنات کا خیال آجاتا ہے۔جس خالق نے ہدایت کے لیے کتاب دی ہے اسی طرح زندگی گزارنے کے لیے خوب صورت کائنات بنائی، دریا، سمندر، پہاڑ، درخت،زمین ،آسمان باغات اور بیشمار چیزیں انسان کی سہولت کے لیے تخلیق کیں ۔کائنات میں انسان رہتا ہے اگر انسان غور کرے کہ کائنات کی کتاب تصدیق کر رہی ہے اللہ کی کتاب کی دنیا کی ہر چیز گواہی دے رہی ہے جو قرآن بتا رہا ہے اگر کائنات اور قرآن پر تدبر کریں تو ایک اور حقیقت ظاہر ہوگی کہ ہر انسان کی زندگی ایک بند کتاب ہے۔
اللہ پاک کا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں زندگی کی نعمت عطا فرمائی اور مسلم گھر میں پیدا کیا۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہر شخص ک زندگی اس کی کتاب کس طرح ہے۔ جب انسان اس دنیا آتا ہے اللہ کی رضا سے شعور کی منزل میں قدم رکھتا ہے اللہ پاک نے پہلے ہی سے روحانی زدگی اور مادی زنگی گزار ے کے لیے سارا ا نتظام کیا ہوا ہے۔ اس کے ماں باپ اس کے بہن ، بھائی ہدایت کے لیے قرآن،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ،اورسب سے بڑھ کر عقل جیسی نعمت جو اللہ نے ہر انسان کو عطا کی ہے۔اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس کو کس طرح استعمال کرتا ہے ۔
اپنی زندگی کی کتاب کوآخرت کے لیےکیسے لکھتا ہے کیونکہ اللہ نے یہ حق کسی کو نہیں دیا کہ اس کی کتاب کوئی اور تحریر کرے۔ہر روز ہر انسان صبح اٹھ کر کتاب لکھنا شروع کر دیتا اور رات جب نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے تو اس کی کتاب بند کر دی جاتی ہے۔اس طرح اس کی موت تک اسے اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی اللہ کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق گزارتا ہے یا اس کے بر عکس۔بہرحال جب اس کی زندگی کی مہلت ختم ہوجاتی ہے تو اس کی کتاب زندگی بند کر دی جاتی ہے۔
ہر شخص کی کتاب قیامت کے دن کھولی جائے گی اس روز انسان کہے گا، جس نے مجرمانہ زندگی گزاری ہوگی۔
سورة کہف آیت 49
ترجمہ: مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندرجات سے ڈر رہے ہونگےاور کہہ رہے ہونگے کہ “ہائے ہماری کم بختی ” یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں ہے جو اس میں درج نہ ہو گئ ہو” جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گےاور تیرا رب کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ کرے گا۔
سورة حاقہ ۔۔آیات 25 تا 35
ترجمہ: اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا ” کاش میرا اعمال نامہ (کتاب زندگی) مجھے نہ ملا ہوتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ کاش میری وہی موت(جو دنیا میں آئ تھی) فیصلہ کن ہوتی آج میرا مال میرے کچھ کسم نہ آیا میرا سارا اقتدار ختم ہو گیا” حکم ہوگا پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو، پھر اس جہنم میں جھونک دو ،پھر اسکو ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔یہ نہ اللہ پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔لہذا آج نہ یہاں اس کا کوئی یارغمخوار ہے اور نہ زخموں کی دھوون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا ہے ، جسے خطاکاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔
اب ان لوگوں کا انجام جو دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارتے تھے ان کی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا تھا ان زندگی کا کوئ گوشہ قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے خالی نہ تھا۔اپن جان اپنا مال اپنا وقت، صلاحیتیں اور اپنی اولاد سب اللہ کے لیے وقف تھیں۔اس سب کے باوجود بھی اللہ سے ڈرتے رہتے تھے۔ ان کا نجام قرآن ہمیں کیا بتاتا ہے۔ نیک لوگوں کا انجام یہ ہے۔
سورة انشقاق آیت 7 تا 8
ترجمہ: پھر جس کا نامہ اعمال (کتاب زندگی) اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا ، اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا اور وہ اپنے لوگوں میں خوش خوش پلٹے گا۔
سورة حاقة آیت 21 تا 24
ترجمہ: پس وہ دل پسند عیش میں ہوگا، عالی مقام جنت میں جس کے پھلوں کے گچھے جھکے پڑ رہے ہونگے۔(کہا جائے گا) مزے سے کھاؤ پیو اپنے ان اعمال کے بدلے میں جو تم نے گزرے ہوئے دنوں می کیے ہیں۔
ابھی ہماری مہلت عمل ہے ہمیں اختیار ہے کہ کہ ہم اپنی زندگی کی کتاب جنت کے لیے لکھ رہے ہیں یا اللہ نہ کرے دوزخ کے لیے۔اختیار ہمارے پاس ہے سارا نصاب موجود ہے ،حجت پوری ہو چکی ہے ۔اللہ پاک ہم سب اہل ایمان کو اللہ کی رضا ااور جنت کا اہل بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین