ہمارے معاشرے میں عورت کو گھر کی زینت سمجھا جاتا ہے۔ جو کہ محنت، لگن اور اپنے اخلاق سے ایک اچھے خاندان، ایک خوبصورت معاشرے کی تکمیل کا باعث بنتی ہے، اپنے خاندان کیلئے اپنی خواہشات کی قربانی دینے کیساتھ ساتھ حقوق کی جدوجہد میں لڑتی قبر میں جا اترتی ہے، مگر افسوس کہ آج ہمارے معاشرے میں مقدس مقام کا درجہ رکھنے والی عورت خود ہی مختلف انداز میں مظالم کا شکار ہے، عورت کے حقوق اس کے تحفظ کا نعرہ لگانے والی تنظیموں نے عملی اقدامات کی بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دی، عالمی تنظیموں نے بھی صرف بیانات تک خود کو محدود رکھا، دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جو عورت اپنے باپ، بھائی، بیٹوں کی خوشحالی اور ان کے اچھے مستقبل کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتی ہے لیکن وہ ہی خاندانی نظام میں اپنے ہی حقوق سے محروم رہ جاتی ہے۔
آج کا مرد عورت کو اس کا شرعی، قانونی حق دینا اپنی توہین سمجھتا ہے، کہیں عورت کو کما کر لانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور کہیں عورت کو اپنے حقوق کی آواز اٹھانے پر مختلف انداز میں مارا پیٹا جاتا ہے۔ آج وطن عزیز میں خواتین کے تحفظ کی آڑ میں چند غیر ملکی عناصر ہمارے معاشرے میں عزت کا مقام رکھنے والی عورت کو اپنے مکروہ مقاصد کیلئے مختلف قسم کے اسلام دشمن سلوگن بنا کر گمراہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ مگر ہماری ریاست مدینہ نےخاموشی کا روزہ رکھا ہوا ہے، ایسی صورتحال میں پاکستان میں مذہبی جماعتوں نے بے حیائی کیخلاف آواز اٹھائی، جن میں جماعت اسلامی کا کردار سرفہرست ہے۔
میں یہاں ذکر کرتی چلوں کہ پاکستان جیسے ملک میں بھی گھریلو حالات، غربت، تنگ دستی، محرومیوں اور مہنگائی کے ہاتھوں مجبور عورت، جب روزگار کی تلاش میں باہر نکلتی ہے تو وہاں بھی اسے کئی پیچیدہ مسائل کا سامنا رہتا ہے، اول تو ملازمت کے حصول کے لیے بھی سو طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور فرض کیجیے کہ ملازمت مل بھی جائے تو بھی سماج میں موجود مردوں کی حاکمیت کے باعث اسے ہر وقت جنسی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خواتین کے گھر سے نکل کر نوکری کرنے کی مخالفت کی جاتی ہے، جبکہ اگر یہی خواتین روز مرہ کے گھریلو کام کاج میں مصروف رہیں تو خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جو عورت گھر کے کام خوش اسلوبی سے کر رہی ہو اور بیک وقت خانہ داری سے لیکر بچوں کی تعلیم تک میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی ہو، وہ ملازمت اور کاروبار کی فیلڈ میں بھی اپنا آپ منوا سکتی ھے۔ تاریخ میں حضرت خدیجہ الکبریٰ کی مثال موجود ھے،جو کہ گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب بزنس ویمن بھی تھیں۔
دوسری جانب خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور پہلے کم نظر آنے والے یہ واقعات اب معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، اس درندگی سے معصوم بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
اکیسویں صدی میں بھی پاکستان میں کاروکاری، وٹہ سٹہ اور ونی جیسی جاہلانہ رسومات عروج پر ہیں۔ راہ چلتے عورتوں پر آوازیں کسنا، انہیں برے ناموں سے پکارنا، مذاق اڑانا، سوشل میڈیا پر ان کی تضحیک کرنا، انہیں بلیک میل کرنا، غیر مہذب الفاظ کا استعمال کرنا اور اسے غیرت کے نام پر قتل کر دینا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔
میرے خیال میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر صرف مذمتی الفاظ، ریلیوں اور سیمینارز سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، معاشرے میں خواتین کے مقام کی اہمیت کو کھلے دل اور کھلے ذہن سے تسلیم کرنا ہو گا، ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا، جو خواتین پر تشدد کرتے ہیں، ان جاہلانہ رسم و رواج کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہو گا، جن سے ناصرف نظام عدل پر انگلی اٹھتی ہے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ملک کی ساکھ خراب ہو رہی ہے، حکومت کو سنجیدگی سے اس حوالے سے مزید قانون سازی کرنا ہو گی اور خواتین کے تحفظ کو ہر حال میں یقینی بنانا ہو گا۔
ایسی صورتحال میں جماعت اسلامی حلقہ خواتین بحیثیت ایک انقلابی جماعت کے معاشرتی اصلاح، استحکام کی فکر اور اس کیلئے جدوجہد میں ہمہ وقت مصروف عمل ہے، گزشتہ دنوں جماعت اسلامی حلقہ خواتین نے مضبوط خاندان، محفوظ عورت اور مستحکم معاشرہ کے عنوان سے بھرپور ملک گیر مہم چلائی جس کا مقصد معاشرے میں تکریم نسواں کا شعور بیدار کرنا، استحکام خاندان کی اہمیت کو اجاگر کرنا، عورت پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اور نوجوانوں کی فکری و عملی تربیت کرنا تھا۔
تمام صوبوں کے ذونز، وارڈز اور یونین کونسلز کی سطح پر سیمینارز، پریس کانفرنسز، مشاورتی فورمز اور حسن معاشرت کورسز کروائے گئے، آئمہ مساجد کو خاندان،خواتین اور استحکام خاندان کے مسائل سے متعلق جمعہ کو خطبات دینے پر متوجہ کیا، مختلف فورمز پرگورنمنٹ کے جاری کردہ ہراسمنٹ بل پر عملدرآمد کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا، ہائیکورٹس میں خواتین کے حق وراثت پر ورکشاپس کروائی اور سوشل میڈیا پر مسلسل پیغامات جاری کیے گئے۔
اس بار یوم خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے گھریلو، بھٹہ، تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، میڈیا اور تھانوں میں خواتین کیساتھ ہونے والے جنسی استحصال کو فوکس کیا گیا تو سب نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ عورت کو تحفظ صرف اللہ تعالیٰ کی دی گئی ہدایات پر عمل کے ذریعے ہی مل سکتا ہے،یہ ایک شیطانی حربہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان مخالفت کی فضا پیدا کر کے خاندان اور معاشرت کو تباہی کا شکار کر دیا جائے، جیسا کہ پچھلے تین سالوں سے 8 مارچ یوم خواتین کے مظاہروں میں نظر آرہا ہے۔
دیکھا جائے تو حقوق نسواں کی نام نہاد تنظیموں کا نام بذات خود متنازعہ ہوگیا ہے، پاکستانی صحافیوں اور تجزیہ نگاروں نے بھی کھل کر اس کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ عورت مارچ پر نہ صرف پابندی لگا دی جائے بلکہ اس کے ذمہ داران کو فوری گرفتار کیا جائے۔
جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی مضبوط خاندان، محفوظ عورت اور مستحکم معاشرہ مہم بجا طور پر ہر پاکستانی عورت کے دل کی آواز بن گئی ہے، جماعت اسلامی خواتین کی جانفشانی اور شب و روز کی محنت نے اس کے بیانیے کو ہر پاکستانی عورت کی آواز بنا دیا ہے، ہر درد رکھنے والے پاکستانی کا حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، جو کہ اسلام کے نام پر بنا ھے۔
پاکستان میں نام نہاد حقوق نسواں کی تنظیموں کی آڑ میں عورت کے تقدس کو پامال کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا جائے، تاکہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں عورت کا تقدس برقرار رہ سکے۔