ترکی میں پائے تخت سلطان عبدالحمید کے نام سے بننے والی ٹی وی سیریز کا پانچواں اور آخری سیزن آج کل ترکی کے قومی میڈیا چینل پر کامیاب ریٹنگ کے ساتھ رواں دواں ہے۔ پائے تخت عبدالحمید صرف ایک ڈرامہ سیریز ہی نہیں ہے بلکہ یہ اس سے بڑھ کر ایک آواز ہے! وہ آواز جو ہر مخلص مسلم قلمدان اور مفکر کی ہے اور وہ آواز جو مسلمانوں کی نوجوان نسل تک پہنچنا ضروری ہے۔
ڈرامہ سیریز پائے تخت سلطان عبدالحمید کا مرکزی خیال خلافت عثمانیہ کے آخری وارث اور سلطان عبدالحمید کے دور حکومت اور انکی شخصیت کے خاص خاص پہلوؤں کے گرد گھومتا ہے۔ سلطان عبدالحمید کی شخصیت کے سارے پہلو جیسا کہ انکی سیاسی بصیرت، مشرق اور مغرب کی سیاست کے معاملے میں زرخیز علم،قرآن اور سنت سے محبت، مسلمانوں کو مغرب کی سازشوں سے بچانے کے لیے انکی کوششیں انکی شخصیت کے ان تمام لوازمات کو بہت عمدگی سے اسکرین پر پیش کیا گیا ہے۔ جن کے تحت ان عادات اور اقدار کا مالک کوئی بھی شخص اس دور میں مسلم امت کی کمان سنبھال سکتا ہے۔
سلطان عبدالحمید کا کردار نبھانے والے ترک اداکار بلینت انال نے اس کردار کے ساتھ پورا انصاف کیا ہے۔ لوگ پچھلے چار سیزن کے تحت اس کردار کے سحر میں یوں مبتلا ہوگئے کہ اب جبکہ اسکرین پر خلافت عثمانیہ اور سلطان عبدالحمید کا آخری وقت دکھایا جارہا ہے تو دیکھنے والی ہر آنکھ اشک بار ہے شاید اس سے پہلے کسی نے اس طرح یہ احساس دلانے اور ہمارے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کی کوشش ہی نہ کی کہ خلافت کا سایہ دار شجر اس امت کا کتنا قیمتی سرمایا تھا۔
سلطان عبدالحمید کی شخصیت کے علاوہ ایسے بہت سے سچ اس سیریز کے ذریعے اجاگر کیے گئے ہیں جنکا اس دور میں بے باکی سے بولے جانا مسلم دنیا کے لیے بہت ضروری ہے ایسے سچ جنکو مغرب آج تک جھوٹ کے ساتھ پیش کرکے کتابوں کی زینت بناتا آیا ہے اور بدقسمتی کے ساتھ دنیا ان کتابوں کو گھول گھول کر پیتی رہی ہے۔
مثال کے طور پر اس ڈرامہ سیریز میں چند مغربی شخصیات جنکو دنیا مغربی مفکرین کے نام سے جانتی ہے جیسے Theoder herzal، Alexander Israel parvus,Gerturude bell, اس ڈرامہ سیریز میں انکا ایک تعارف ان سازشی لوگوں کے طور پر کرایا گیا ہے جو اٹھارویں صدی کے آخر میں مغرب میں اور مشرق میں کیپیٹلزم، روس میں کمیونزم قائم کرنے اور عرب کو بے یارو مدد گار بنانے کا منصوبہ لیے بیٹھے تھے تاکہ وہاں صیہونی ریاست قائم کی جاجسکے۔انکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سلطنت عثمانیہ تھی جس کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے سر توڑ کوششیں کی اور درحقیقت دنیا نے تاریخ نے یہ دیکھا کہ کیسے انکا یہ منصوبہ کامیابی سے پورا بھی ہوگیا۔ ڈرامہ جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے ویسے ویسے مغرب کی ایسی مزید نام نہاد سحر انگیز شخصیات کے الگ ہی چہرے آپکو دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اس ڈرامہ کا دوسرا قابل تعریف پہلو یہ ہے کہ اٹھارویں صدی سے لے کر بیسویں صدی کے آغاز تک اسرائیل کے قیام کے لیے مسلم دنیا اور خلافت کے خلاف ہونے والی سازشیں۔ ان سارے حالات اور واقعات کو جس طرح لکھا اور اسکرین پر پیش کیا گیا وہ یقینا قابل تحسین ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس ڈرامہ سیریز میں مسلم دنیا کے ایسے بہت سے مسائل کا ذکر کیا گیا ہے جن کا تعلق نہ صرف انیسویں صدی کے مسلمان سے تھا بلکہ آج کے مسلمان سے بھی ہے۔ مثال کے طور پر سود کا نظام، کاغذی کرنسی کا نظام،مغرب کی مادہ پرستی اور نوجوان نسل پر اسکے اثرات۔ ان تمام مسائل کو حالات و واقعات اور کرداروں کی صورت میں بہت عمدگی سے پرویا گیا ہے۔
2014 تک ترکی کے پروڈکشن ہاؤسسز کی جانب سے ایسے کئی ڈرامے بنائے گئے جن میں خلافت عثمانیہ کا ایک مسخ چہرہ دکھایا گیا اور بدقسمتی سے ان ڈراموں کو نہ صرف مغرب میں پزیرائی ملی بلکہ یہاں پاکستان میں بھی ان ڈراموں کو اردو ڈبنگ کے ساتھ نشر کیا گیا۔ ان تمام ڈراموں کے نظریات کے خلاف بنائے جانے والی اس سیریز پائے تخت عبدالحمید نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والا کام کیا ہے۔
اس ڈرامہ کو ترکی کے علاوہ کئی ممالک میں سب ٹائٹلز کے ساتھ دیکھا جارہا ہے ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے لیکن ذاتی خیال ہے کہ ارتغل غازی کی طرح “اس ڈرامہ کو بھی پاکستان ٹیلی ویژن پر اردو ڈبنگ میں نشر کیا جانا چاہیے” اسی طرح سچی حقیقت پر مبنی یہ ڈرامہ پاکستان کی اکثر عوام تک پہنچ سکے گا اور خاص طور پر نوجوان نسل اٹھارویں صدی سے اب تک مغرب اور صیہونی طاقتوں کی مسلم امت کے خلاف سازشوں کا پروپیگنڈہ سمجھ سکے گی۔
کیونکہ یہ تخلیق کا اصول ہے وہی تخلیق دل پر اثر کرتی ہے جو دل سے لکھی گئی ہو اور اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ اس ڈرامہ کو لکھنے والوں کے دلوں میں امت کا درد اور خلافت کی حسرت موجود ہے۔
ایسے دور میں جب ہمارے یہاں نوجوان نسل بد قسمتی سے کتب بینی سے دور اور اسکرینز سے قریب ہے تو انہیں اس طرح کے کھرے سچ سے متعارف کرانے کے لیے اور انکی ذہن سازی کے لیے ڈرامہ سیریز پائے تحت سلطان عبدالحمید سے بہترین فی الوقت اور کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔