اللّٰہ تعالٰی نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے۔اس پاک ذات نے ہر انسان کو مختلف بنایا اور بے شمار خوبیاں و صفات عطا کی ہیں جو ایک انسان کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں ۔اللّٰہ رب العزت نے انسانوں کو دماغ عطا کیا تاکہ وہ سوچ و بچار کر سکیں۔فیصلے کر سکیں اپنے اردگرد ماحول کو بہتر سے بہتر بنا سکیں ۔
اللّٰہ تعالٰی نے انسان کو سوچ و سمجھ عطا کی تاکہ وہ غلط اور صحیح کی پہچان کر سکے۔جب ایک بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے اس کے لئے یہ دنیا نئی ہوتی ہے وہ وقت کے گزرنے کے ساتھ اپنے اردگرد کے ماحول اور اپنے ننھے منھے تجربات سے سیکھتا ہے بالکل اسی طرح ہم سب اپنی زندگی اور اس میں پیش آنے والے واقعات سے سیکھتے ہیں۔کہتے ہیں نہ کہ وقت بہت بڑا استاد ہے وہ سب سکھاتا ہے جو ہمیں کوئی کتاب’ کوئی موٹیویٹر اور استاد نہیں سکھا سکتا ۔
ہم بحیثیت انسان غلطی کرنے سے مستثنٰی نہیں ہیں بلکہ انسان کو توخطا کا پتلا کہا گیا ہے۔یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ جب تک ہم غلطیاں نہیں کریں گے سیکھ نہیں پائیں گے ۔ ہاں کچھ غلطیاں ہم سے دانستہ سرزد ہوتی ہیں اور کچھ نا دانستہ۔اب اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ ہمیں اس غلطی کا تدراک ہو جائے اور ہم اس کو تسلیم کر لیں اور نہ دہرانے کا تہیہ بھی کر لیں۔اگر ہم ایک ہی غلطی کو بار بار دہرائیں گے تب ہم جیسا بے وقوف کوئی نہیں ہو گا ۔
دوسری طرف ہم اس ڈر اور خوف سے بیٹھے رہیں کہ کہیں فیصلہ غلط نہ لے لیں یا کوئی غلطی سرزد نہ ہو جائے ایسی صورتحال میں ہم زندگی میں کچھ کر نہیں پائیں گے۔ہمیں اپنے اندر اچھے اور برے فیصلوں سے سیکھنے کی ہمت پیدا کرنی چاہئیے ۔
ارسطو کےبقول : “جب ہم کوئی کام کرتے ہیں تبھی سیکھتے ہیں” ـ
البرٹ آئن سٹائن کے مطابق “اگر کسی نے زندگی میں کوئی غلطی نہیں کی تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے کچھ نیا سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی” ـ
جیسے ایک بچہ بولنا شروع کرتا ہے تو تتلا کر اور غلط لفظ بولتا ہے لیکن وہ بولنا نہیں چھوڑتا بلکہ ایک وقت آتا ہے کہ وہ روانی سے بولنے لگتا ہے بالکل اسی طرح جب بچہ ایک سال کا ہوتا ہے تو چلنا سیکھتا ہے پہلے سہارا لے کر کھڑا ہونا پھر پکڑ پکڑ کر قدم بھرنا اور پھر بغیر سہارے کے چھوٹے چھوٹے قدم لینا شروع کرتا ہے اور بالآخر بھاگنا شروع کر دیتا ہے اب اگر وہ شروع میں گرنے سے گھبرا کر کوشش کرنا چھوڑ دے تو وہ اپنے پیروں پر چل نہیں پائے گا۔گرنے کے ڈر سے چلنا نہیں چھوڑنا ہے بلکہ گر کر ‘ سنبھلنا ہے اور سنبھل کر کپڑے جھاڑ کر نئے عزم اور نئی حکمت عملی کے ساتھ منزل کی طرف بڑھنا ہے اور یہی زندگی کا حاصل ہے ـ
اسی طرح اگر ہم اپنی غلطیوں کے ڈر سے فیصلہ لینا یا کچھ نیا کرنا چھوڑ دیں تو سیکھ نہیں پائیں گے اپنے خوابوں کی تعبیر نہیں دیکھ پائیں گے ـجب ہم اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں تو دل میں وسوسے گھیر لیتے ہیں ڈر کر خوف ذدہ ہو کر سفر ترک کرنے کی بجائے ہمیں اپنی حکمت عملی بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے اپنے سیکھے ہوئے تجربات کو بروئے کار لانا ہوتا ہے ـامریکہ کے مصنف اور مارکیٹنگ ایکسپرٹ رائے ایچ ویلیمز کہتے ہیں ” کہ عقلمند اور سمجھدار آدمی وہ ہے جو اپنی غلطیوں سے سیکھے اور ان کو دوبارہ نہ دہرائے ” ـ
دراصل ہمارے اندر کا انسان ڈرتا ہے ناکامیوں سے’ نقصان سے اور لوگوں کی باتوں سے۔واصف علی واصف اپنی کتاب دل دریا سمندر میں لکھتے ہیں کہ ” خوف ذدہ انسان اول تو کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا اگر کر بھی لے تو غلط فیصلہ کر جاتا ہے۔خوف اعصاب شکن بیماری ہے یہ تمام فکری صلاحتیں سلب کر دیتا ہے جس سے ہماری شخصیت ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے ” ـ
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ہم کچھ کر کے سیکھتے ہیں تب ہم میں اعتماد بڑھ جاتا ہے۔صرف تھیوری پڑھ لینے سے ہم سیکھ نہیں جاتے اس تھیوری کو پریکٹیکلی یعنی عملی جامہ پہنانے سے ہم سیکھتے ہیں۔یہی کمزوریاں ہمارے نصاب میں بھی ہیں ہمیں تھیوری پڑھائی جاتی ہے پریکٹیکل لائف کا کوئی تجربہ نہیں دیا جاتا تبھی ڈگریاں ہاتھ میں لئے نوجوان سڑکوں کی دھول جھونکتے پھرتے ہیں ـ
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کیسے پتہ چلے کہ ہمارا کونسا فیصلہ درست ہے اور کونسا غلط۔اس کا فیصلہ تب ہو گا جب ہم اس خیال کو عملی جامہ پہنائیں گے ہار ‘ جیت’ نفع نقصان ‘ غلط اور صحیح تو بعد کی بات ہے پہلا قدم اٹھانا ضروری ہے بس پھر قدم اٹھتے جائیں گے اور ہم سیکھتے جائیں ـ غلطی کرنا فطری عمل ہے اس میں شرمندگی یا خوف و ڈر کیسا ؟ زندگی رسک لینے کا نام ہے پھر حاصل کردہ تجربات سے سیکھنا دانشمندی ہے ـ
عقل و سمجھ ہمیں رات و رات نہیں آ جاتی یہ تجربات ہمیں تحفاتاً دیتے ہیں۔اس میں عمر کے ہندسوں کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ وقت کا پہیہ ہوتا ہے جو ہمیں سکھاتا ہےـ اس سیکھے ہوئے سبق کو یاد رکھنا بہتر یہ ہے کہ ایک جرنل بنایا جائے اور اس میں اپنی غلطیوں کو لکھا جائے اور ان سے حاصل کردہ سبق کو بھی لکھا جائے تاکہ مستقبل میں ان تجربات کی روشنی میں فیصلے کئے جائیں یہی حکمت عملی ہمیں دوسروں سے ممتاز بنائے گی ـ
ہم بچپن سے ایک پیاسے کوے کی کہانی پڑھتے آ رہے ہیں کہ پیاسا کوا جس نے ہمت نہ ہاری اور گھڑا جس میں پانی بہت کم تھا کنکر ڈالتا رہا یہاں تک کہ پانی اوپر آگیا اس نے اپنی پیاس بجھائی اور اڑ گیا۔اب اگر سوچیں کہ وہ اس وقت ہمت ہار دیتا یا سوچتا کہ میرا یہ فیصلہ ٹھیک ہے یا نہیں مجھے کامیابی ملے گی یا نہیں تو وہ پیاسا ہی مر جاتا ـ
ہمیں اپنی چھوٹی سی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے رسک لینے پڑتے ہیں خطروں سے کھیلنا پڑتا ہے۔ہمیں کامیاب لوگ تو نظر آتے ہیں لیکن اس کامیابی تک پہنچنے کی محنت اور آزمائشوں سے گزرنا ‘ ان کی ناکامیاں ‘ ان کا ٹوٹ کر بکھرنا پھر خود کو سمیٹنا اور منزل کی طرف چلنا نظر نہیں آتا۔اللہ کبھی کسی کی محنت اور قربانی ضائع نہیں ہونے دیتا اور ہم اپنے تجربات سے سیکھتے سکھاتے وقت کی بھٹی سے گزر کر کندن بنتے چلے جاتے ہیں اور آنے والوں کے لئے رستے آسان کرتے چلے جاتے ہیں ـ
خود میں اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں کیونکہ لوہے کو کوئی تباہ نہیں کر سکتا سوائے اس کے اپنے زنگ کے – اسی طرح کوئی بھی انسان کو تباہ نہیں کر سکتا سوائے اس کی اپنی سوچ کے۔ زندگی آزمائشوں سے گزرنے کا دوسرا نام بھی ہے۔قدم قدم پر ہمیں ناکامیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ہمیں ثابت قدم اور پر عزم رہ کر ہی حالات کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے۔گِر کر سنبھلنا ہی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔لہٰذا ہمیں امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئیے اور بلا خوف و خطر زندگی کے سفر کو جاری رکھنا چاہئیےـ