آپ کہتے ہیں آپکو لوگوں کے رویے اور معاشرے کی بدصورتی جینے نہیں دیتی ؟ نہیں بلکہ آپ خود جینا نہیں چاہتے۔ آپ “مایوسی” کی اس کیفیت کو انسان کی “بے بسی، عاجزی اور بے چارگی” کی علامت یا اس کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور اس لئے اس میں مبتلا شخص پر لوگ بظاہر ترس کھاتے ہیں۔ مگر زیادہ گہرائی سے تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو منکشف ہو گا کہ مایوسی، اور بالخصوص اس کی بنیاد پر خود کشی کا اقدام، انسان کا ایک خود مختارانہ فیصلہ ہے جو اس کی عاجزی اور بے چارگی کا نہیں بلکہ اس کی خود پسندی، عاجلہ پرستی اور خدا فراموشی کا ثبوت ہے، اس لئے اسے قرآن کے مطابق (سورة يوسف، آيت:87؛ سورة الحجر، آيت: 56) ان لوگوں کا شیوہ قرار دیا گیا ہے جو یا تو خدا کو مانتے ہی نہیں یا پھر اس کے سیدھے راستے سے بھٹک گئے ہیں۔
ظاہری بے چارگی اور عاجزی کے پیکر میں، “مایوسی” اور اس کی بنا پر “خود کشی” کا رجحان یا اقدام؛ ایک ایسا ذہنی وعملی رویہ ہے جو در اصل ایک نہایت لطیف قسم کے انسانی گھمنڈ اور تکبر اور انانیت سے پیدا ہوتاہے۔ یہاں ذہنی گھمنڈ کا پہلو یہ ہے کہ ایسا “مایوس اور مائل بہ خود کشی” شخص گویا اس حقیقتِ واقعہ کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ اس کائنات اور اس میں برپا ہونے والے تمام حالات اور تغیرات کا “کنٹرول” اس کے یا کسی دوسرے انسان کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ براہِ راست “خالقِ کائنات” کے ہاتھ میں ہے اور وہ انہیں، بلا شرکتِ غیر، اپنی مشیئت و حکمت سے چلاتا ہے نہ کہ کسی اور کے مشورے یا وقتی خواہشات و جذبات کی رعایت سے۔
چلیں میں آپکو امریکہ کے سابق صدر کی مثال دیتی ہوں ( آپ میں سے صاحب علم مجھے نام بتائیں) کے وہ کونسے صدر تھے جنہوں نے ٢٢ سال کی عمر میں زندگی سے مایوس ہوکر اپنی ڈائری میں لکھا
“اگر میرے غم پوری دنیا میں بانٹ دیے جائے تو ایک چہرہ بھی خوش نہ رہے”
دنیا میں تین طرح کے لوگ ہیں ، ایک وہ جو اپنی نارمل زندگی گزارتے ہیں ، دوسرے وہ جو لوگوں اور زندگی سے مایوس ہوکر خودکشی کرلیتے ہیں اور تیسرے وہ جو حالات کا مقابلہ کرکے کامیاب لوگوں کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں ۔ آپ سروے کریں اور آپکو اندازہ ہوگا کے ہر کامیاب اور مقبول شخص اپنے آپ میں ایک زبردست جنگ لڑ رہا ہوتا ہے ۔ لیکن اسے خود پر اتنا اعتماد ہوتا ہے کے اسے لوگوں کے رویے معاشرے کی بدصورتی ، غربت ، طعنے کچھ بھی ہرانہیں پاتے ۔
جب سراج الحق اپنی والدہ کے پاس شکایت لیکر آئے کے ” بچے میرے پھٹے ہوئے جوتے کا مزاق اڑاتے ہیں میں اب اسکول نہیں جاوں گا” تب انکی والدہ نے انہیں یہ نہیں کہا کے
“آہ بیٹا یہ دنیا ہمیں جینے نہیں دے گی آو خودکشی کرلیتے ہیں۔” بلکہ اپنی حکمت عملی سے انکی ٹوپی ترچھی کرکے پیغام دے دیا کے دنیا تو تاقیامت تم پر باتیں بنائے گی تم اپنی عقل سے انہیں زیر کرنا ۔۔ ہار مت ماننا ۔۔