اگر کوئی شخص آپ سے کہتا ہے کہ وہ روز صبح 7 بجے سو کر اٹھتا ہے، ہاتھ منہ دھو کر جاگنگ کرنے پارک جاتا ہے، آدھے گھنٹے کی جاگنگ کے بعد ورزش بھی کرتا ہے، گھر واپس پہنچ کر وہ انار کا جوس پیتا ہے جس کے نتیجے میں اس کی طبیعت مزید تازہ دم ہوجاتی ہے، اس کے بعد وہ آرام سے ناشتہ کرتا ہے، اس کے بعد تیار ہوکر دفتر چلا جاتا ہے، دفتر جاتے ہوئے وہ ہمیشہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھتا ہے، اخبار پڑھتے ہوئے دفتر جانا اس کا روز کا معمول ہے، شام کو گھر واپس آتا ہے تو بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ کو دیکھ کر اس کی دن بھر کی تھکن دور ہوجاتی ہے، رات کے کھانے کہ بعد وہ بیوی بچوں کو لے کر گھومنے نکل جاتا ہے، وہ آپ کی حیرانگی میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہے کے زندگی میں جو چاہا وہ ملا، جس تعلیمی ادارے کے جس شعبے میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش تھی وہیں سے آج فارغ التحصیل ہے، اس کی محبت بھی لاحاصل نہیں رہی جو کل اس کی محبوبہ تھی وہ آج اس کی بیوی ہے۔غرض اس نے زندگی میں جس چیز کی خواہش کی وہ پوری ہوئی، جو مانگا وہ حاصل کیا،زندگی میں کسی قسم کا خلا نہیں ہے،حاصل اور لاحاصل کی الجھنوں سے کبھی اس کا واسطہ نہیں رہا اگر اس بے فکر اور پر سکون زندگی کی کہانی سن کر آپ حیرانگی کے عالم میں اس کی زندگی پر رشک کر رہے ہوں اور اس کو دنیا کا سب سے کامیاب انسان سمجھ کر اپنی زندگی کے سمندر میں خواہشات کی سر اٹھاتی لہروں کو بے سود سمجھ کر حسرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہوں تو یقین کریں وہ شخص آپ سے جھوٹ بول رہا ہے اور اب اس کی چرپ زبانی سے متاثر ہوکر دھوکے کا شکار ہوچکے ہیں۔
میں گذشتہ 12 سال سے ایک اخبار فروش بزرگ کو جانتا ہوں ۔ان کی ساری زندگی آزمائشوں اور مشکلات کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔حالات کے جبر نے انہیں بچپن سے ہی محنت مزدوری کرنے پرمجبور کردیا۔یہ دس سال کی عمر سے مزدوری کر رہے ہیں۔ ان کا بچپن اور جوش مارتی جوانی کا عہد بھی در در کی ٹھوکریں اور شکم کی بھوک مٹانے کی تلاش میں گزر گیا اور بڑھاپا بھی اسی میں صرف ہورہا ہے پچھلے دنوں میرا ان کی دکان کے سامنے سے گزر ہوا تو انہوں نے موقع پاتے ہی مجھے چائے کی پیالی پر دعوت دے دی،ادھر ادھر کی باتوں کے بعد نہ جانے اچانک کیوں ذہن کے دریچے پر سوچ نے دستک دی ،آپ کو زندگی سے کوئی گلا ہے؟،میں نے سوال داغ دیا ،انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے جیب سے سگریٹ نکالی اور اسے سلگاتے ہوئے گویا ہوئے “بیٹے! زندگی سے کیا گلہ کرنا جب کہ یہ ہے ہی عارضی،یہاں کے دکھ اور درد،کامیابیاں اور ناکامیاں سب فانی ہیں ۔میں نے ایک سخت زندگی گزاری ہے،میں پچپن کی شرارتوں اور جوانی کے پر آشوب دور سے محروم رہا، لوگ میری زندگی کو عموماً حسرت زدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں مگر تم یقین جانو میری زندگی میں کوئی حسرت باقی نہیں ہے،خدا نے مجھے بہت سی نعمتوں سے نوازا،اچھی صحت ،دوکمروں کا مکان اور فرمانبردار اولاد میرا اثاثہ ہیں۔بس تم یہ سمجھ لو کے میں اللہ کی تقسیم پر راضی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے اطمینان قلب کی نعمت بھی حاصل ہے۔آپ بظاہر اس انسان کی زندگی کو مال و وولت کے پیمانے پر پرکھ کر اسے ناکام قرار دےرہے ہوں مگر یقین جانیں میں اس کو ایک مثالی زندگی سمجھتا ہوں ۔
ہم لوگوں کے ذہنوں میں بچپن سے ہی ایک بات گھول کر پلادی جاتی ہے، اچھی تعلیم تو اچھی نوکری، اچھی نوکری تو بڑا گھر، بڑی گاڑی اور بڑے گھرانے کی لڑکی تمہاری شریکِ حیات ہوگی جب یہ ساری آسائشیں تمہیں حاصل ہوں گی جبھی تم ایک مثالی زندگی گزار سکتے ہو۔ آپ یقین کریں اس مثالی اور پر سکون زندگی کے حصول کے لیے لوگ دوسروں کا استحصال کرتے ہیں،دوسروں کو نیچے دیکھانے کی کوشش کرتے ہیں ،زیاددہ سے زیادہ مال کمانے اور آسائشوں سے بھری زندگی گزارنے کے لیے حلال اور حرام کا بھی خیال نہیں رکھتے جس کے نتیجے میں معاشرے میں انتشار پھیلتا ہے ، تفریق جنم لیتی ہے غریب، غریب سے ٖغریب تر اور امیر وں کا معیار زندگی بلندتر ہوتا رہتا ہے۔ اگر آپ کو رہنے کے لیے چھت،بھوک کے وقت کھانا اور جسم ڈھانپنے کے لیے مناسب لباس میسر ہوتا ہے اور آپ رب کی تقسیم پر راضی رہتے ہیں تو مان لیجیے آپ ایک مثالی زندگی گزار رہے ہیں۔ورنہ خواہشات کی آگ کو تو قبر کی مٹی ہی بجھاسکتی ہے.!