بچپن سے جوانی تک سفید مورتی کا راز میرے لئے عجیب بے چین اور مضطرب کر دینے والا تجسس بنا رہا۔۔ جب کبھی نیند نہ آنے پر “آیا” شہزادیوں، پریوں اور سفید مورتی کی کہانیاں سناتی تو تمام کرداروں کے خاکے خود بخود ذہن کے پردے پر جھلملانے لگتے اور جب سفید کاغذ پر ان کرداروں کو ڈرا کرتی تو شہزادی، پری کا خاکہ تو آسانی سے بن جاتا مگر سفید مورتی بناتے ہوئے لاچار ہو جاتی۔۔۔سفید مورتی کا خاکہ سفید کاغذ پر بھلا کیسے بن سکتا تھا؟۔۔
یک دن اچانک پاپا نے ہمیں اپنے آبائی گاؤں جانے کی خوشخبری سنائی۔۔اور بچوں کے برعکس نہ کبھی ددھیال سے ہمیں کوئی ملنے آتا اور نہ ہی ہم کبھی جاتے تھے جب کبھی ماما، پاپا سے نہ جانے کی وجہ پوچھتے تو وہ بات کا رخ دوسری طرف موڑ دیتے۔۔ کافی عرصہ بعد یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ پاپا جب گاؤں سے تعلیم کے سلسلہ میں شہر گئے تو اپنی رسم و رواج اور روایات سے بغاوت کرتے ہوئے ماما سے پسند کی شادی کرلی، اسی جرم کی پاداش میں انہیں کئی سال اپنے خونی رشتوں سے دور رکھا گیا۔۔۔
گاؤں پہنچنے پر پتہ چلا کہ گاؤں والی حویلی طلسماتی حسن رکھتی ہے۔۔بیس کھلے کمروں جن کے مضبوط مستطیلی دروازوے اور دائروی ستونوں والے برآمدے اور وسیع و عریض دالان پر مشتمل حویلی جس کی اوپری منزل پر محرابی دروازوں والے ہو بہو ایک جیسے پندرہ کمرے اور قدیم طرز کی کھڑکیاں جنہیں مقامی زبان میں باریاں کہا جاتا تھا جن پر لکڑی سے خوبصورت کندہ کاری کی گئی تھی۔۔اور سب سے جو عجیب بات تھی دائیں سے بائیں گننے پر کمرہ نمبر سات کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا چونکہ تمام کمرے ایک ہی طرز اور نمونے کے تھے اس لئے میں گن کر حساب اور پہچان کرتی تھی۔۔۔ میرے لئے سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ ماسوائے ماسی صفیہ کے حویلی کے کسی مکین کو اوپری منزل پر جاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا تھا۔۔ ماسی صفیہ کے ہاتھ میں بھی کبھی سفید نیلاہٹ والے دھلے نکھرے کپڑے اور کبھی سفید لٹھے کی چادر یں ہوتیں یا پھر تین مخصوص اوقات میں کھانے کا ٹرے اور چائے کے برتن۔۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ماسی کی دوپہر والی ٹائمنگ پر چھت پر پڑے کاٹھ کباڑ کے پیچھے چھپ گئی ماسی کے ساتویں کمرے میں داخل ہونے پر ہوا کے جھونکے سے سفید جالی والا پردہ سرسرایا تو سامنے رخ موڑے سفید لباس میں ملبوس کسی عورت کا وجود نظر آیا اس سے پہلے کہ میں کچھ اور سمجھ پاتی ماسی کے پلٹنے پر مجھے دوبارہ کاٹھ کباڑ میں پناہ لینا پڑی_ کچھ دیر بعد دروازے کو دھکیل کر کھولنے کی کوشش کی مگر اندر سے کنڈی لگائی جا چکی تھی۔۔۔۔ نیچے آ کر تمام ہم عمر کزنز کو ماجرا بیان کیا مگر ان سب کے چہرے لٹک گئے اور مجھے اوپر جانے سے سختی سے منع کیا۔۔ ان سب کا انداز ایسا تھا جیسے مجھ سے کوئی ناقابل تلافی جرم سرزد ہوگیا ہو ان کے انداز نے میرے اندر دبے تجسس کو مزید بڑھاوا دیا۔۔اگلے دن سب سے نظر بچا کر کڑکتی دوپہر میں ساتویں کمرے کے پاس پہنچ گئی، پرانی کرسی پر چڑھ کر باہر سے اندر جھانکنے کی کوشش کی۔۔کافی مشقت کے بعد باری میں ایک چھوٹا سا سوراخ تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئی، جیسے ہی اندر کی طرف نظر دوڑائی، سفید مورتی۔۔۔سامنے سفید مورتی تھی، سفید لٹھے کی طرح رنگت جیسے اس وجود میں سرخ خون کی بجائے سفید مائع سرایت کرتا ہو۔۔۔ چہرے کا چاروں طرف سے طواف کرتا سفید چادر نما دوپٹہ، سفید شلوار، قمیض اور سفید انگلیوں پر لپٹی سفید موٹے موٹے دانوں والی تسبیح، کسی گمشدہ چیز کی تلاش میں کھوجتی مضطرب نگاہیں۔۔۔ میں نہ جانے کتنی دیر یوں ہی مبہوت کھڑی رہی، ذرا سے کھٹکے پر ڈری اور گرنے سے بال بال بچی، سانس روکے سیڑھی اتر کر بستر پر آکر پناہ لی۔۔۔۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی پاکیزہ خواب دیکھ لیا ہو۔۔۔
کچھ دن بعد ایک گہری رات کے پرسکون سناٹے میں عورتوں کی گھبرائی اور مردوں کی آپس میں تیز تیز بولنے کی آوازوں سے میری آنکھ کھل گئی، دادا فیض رسول کو فالج کا جھٹکا لگا تھا انہیں ہسپتال لے جایا جا رہا تھا، میری نظر حویلی کے دالان میں عورتوں، مردوں کے جم غفیر سے ہٹ کر اوپری منزل کے ساتویں کمرے کی طرف اٹھ گئی جہاں سفید مورتی باری پر پڑے پردے کو ہاتھ سے ایک طرف ہٹائے کھڑی تھی، بے جان، سنسان، ویران، سرد نظریں۔۔۔۔۔۔جیسے ہی دادا فیض رسول کی گاڑی کو گیٹ سے باہر نکالا گیا، سفید مورتی کمرے میں غائب ہو گئی۔۔۔۔۔ اگلے دن میں نے پہلی مرتبہ تایا جان، پاپا اور چچا کو اوپری منزل کی طرف جاتے دیکھا “نائمہ نے کیا کہا؟ کیا ہسپتال جانے کے لیے راضی ہوئی ہے؟” آخری سیڑھی اترتے تایا جان سے تائی اماں نے بے چینی سے سوال کیا۔۔۔ “نہیں۔۔۔ وہ راضی نہیں ہوئی ہے” تایا جان نے برآمدے میں پڑی رنگدار چارپائی پر سر پکڑ کر بیٹھتے ہوئے مایوسی سے جواب دیا۔۔۔اگلے تمام دن گاؤں بھر کی عورتیں زنان خانے میں سورۃ یاسین کا ختم کرتی رہیں اور مردان خانے سے بچوں کی تلاوت قرآن پاک کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔۔۔ حویلی کی تمام عورتین اسپتال جا کر دادا ابو کو دیکھ آئیں “ماسوائے سفید مورتی کے”۔۔۔ ماما! دادا جان کب گھر آئیں گے؟ چھوٹی بہن فاطمہ نے پوچھا “بیٹا آپ دعا کرو اللہ تعالی دادا کے لیے آسانی کر دیں” ماما نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے سرگوشی کی۔۔۔۔ وہ دن بہت اداس اور خوفزدہ کر دینے والا تھا کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا اور نہ ہی نظر ملا رہا تھا۔۔۔۔ سب بچے سہمے ہوئے تھے اور میں دوسروں کے برعکس سفید مورتی کے نیچے آنے کا انتظار کرتی رہی۔۔۔۔
اگلی صبح عورتوں کے کرلاٹ سے میری آنکھ کھلی۔۔ دادا فیض رسول کی چارپائی دالان کے بیچوں بیچ رکھ دی گئی، عصر کے وقت جب مرد دادا کی میت اٹھانے لگے تو سفید مورتی کو سیڑھیوں سے اترتے دیکھا گیا، چارپائی کے ارد گرد کھڑی عورتیں اور مرد کسی ہیپناٹیزم کے تحت راستہ چھوڑتے گئے، چچا جان نے دادا کے چہرے سے تھوڑا سا کفن سر کا یا۔۔ایک موٹا سا آنسو سفید مورتی کی آنکھ سے نکل کر بے رنگ رخسار پر اٹک گیا۔۔ نائمہ اب تو بابا کو معاف کر دے۔۔۔معاف کر دے۔۔۔ تایا نے سفید مورتی کے سر پر ہاتھ رکھ کر روتے ہوئے التجا کی۔۔۔ بابا! میں نے تجھے معاف کیا۔۔۔ یخ بستہ برف سے ٹکراتی سرد آواز سنائی دی۔۔۔
“آج چاند کی چودھویں ہے،تمہیں یاد ہے نا؟ شام ڈھلنے سے پہلے ہی نائمہ کو کھانا دے آنا”۔۔۔ کھیر کا دیگچہ چولہے سے اتارتے ہوئے تائی اماں نے صفیہ ماسی کو ہدایت دی۔۔۔۔ “ٹھیک ہے بی بی صاحبہ! مگر پہلے یہ کھیر الطاف کو دے آتی، وہ مسجد دے آئے گا پھر میں نائمہ بی بی کا کھانا پہنچا آتی ہوں”۔۔۔ فریج سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے میرے تمام حواس مکمل طور پر الرٹ تھے۔۔۔ ”چاند کی چودھویں رات ” ایسی کیا خاص بات ہوتی ہے، جو دن بھر نہ معلوم سی اداسی اور خوف کی فضا حویلی کے درودیوار کو لپٹائے رکھتی ہے،مسجد میں خاص طور پر مٹھا بھیجا جاتا ہے، اوپری منزل کے ساتویں کمرے میں شام ڈھلنے سے پہلے کھانا پہنچا دیا جاتا ہے، تمام بچوں کو وقت سے پہلے سلا دیا جاتا ہے۔۔۔ رات کے دوسرے پہر یہ تسلی کر کے تمام لوگ سو چکے ہیں میں دبے پاؤں اوپری منزل کے ساتویں کمرے کی طرف چل پڑی۔۔ باری کے سوراخ سے اندر جھانکا مگر وہ سفید مورتی تھی یا میری آنکھوں کا دھوکہ۔۔۔سفید مورتی نئی نویلی دلہن کی طرح سرخ لباس میں ملبوس تھی۔۔ کانوں میں جھاری دار جھمکیاں، کلائیوں میں سرخ و سنہری چوڑیوں کی کھنک، کالے لمبے بالوں کی بل کھاتی ناگن جیسی چٹیا، مخروطی انگلیاں۔۔۔ جن پر میں نے ہمیشہ تسبیح کو لپٹے دیکھا تھا وہی انگلیاں ہونٹوں پر سرخ لپسٹک کی پر تیں چڑھارہی تھیں، آنکھوں میں کاجل کی دھاریں، پیروں میں نقرائی پازیبیں۔۔۔ سامنے کا منظر اتنا سحرانگیز تھا کہ کافی دیر میں اردگرد سے بے خبر دیکھتی رہی۔۔ سفید مورتی نے جیسے رخ پلٹا میں نے جلدی سے واپسی کا راستہ ناپا۔۔۔۔
* پھر سکالرشپ ملنے کی صورت میں ہم سب کو بابا کے ساتھ سوڈان شفٹ ہونا پڑا مگر وقت کے ساتھ ساتھ سفید مورتی کا خیال ذہن میں مزید پختہ ہوتا گیا۔۔۔میں نے کئی مرتبہ اس بارے میں ماما سے پوچھنے کی کوشش کی مگر انہوں نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے اس موضوع سے جان چھڑوا لی۔۔ پھر ایک دن اچانک پاپا نے پاکستان جانے کا اعلان کیا۔۔بچپن ہی سے حویلی کے جانے کے بعد میں چاند کی تاریخوں کا حساب رکھتی تھی۔۔۔
میں کئی سالوں بعد دادا فیض رسول کی حویلی میں تھی، جہاں گزرتا وقت کافی تبدیلیاں لے آیا تھا، حویلی کی پرانی عمارت کے سامنے جدید طرز کی کوٹھی تعمیر کی گئی تھی۔۔ دالان جو بچپن میں ہمیں اسمبلی گراؤنڈ لگا کرتا تھا نئی بلڈنگ کی وجہ سے اس کا احاطہ کم ہو گیا تھا۔۔۔ چچا کی پوری فیملی اسی بلڈنگ میں شفٹ ہو چکی تھی البتہ پرانے حصے کو بھی اسی طرح روایتی طریقے سے مینٹین رکھا ہوا تھا اور تایا لوگ اسی میں رہائش پزیر تھے۔۔۔پچاس بل کھاتی سیڑھیوں سے ہو کر پندرہ ایک جیسے کمرے اور دائیں سے بائیں گننے سے مستطیلی دروازے والا ساتواں کمرہ اور اس میں موجود جیتی جاگتی ”بے جان سفید مورتی”۔۔۔۔۔ ماسی صفیہ کو فوت ہوئے تیسرا سال تھا اب اس کے فرائض اس کی بہو روبینہ نے سنبھال لیے تھے۔۔۔ وہی سفید نیلاہٹ والے نکھرے، دھلے کپڑے اور تین وقت کا کھانا۔۔۔ بچپن کے برعکس اب مجھے اوپری منزل پر جانے سے کوئی ڈر اور خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔ دروازے پر دستک دینے پر مستطیلی دروازہ کھولا گیا۔۔۔ سامنے موجود بے رنگ سراپا جس کی خون سے عاری سفید رنگت، سنسان، اداس آنکھیں جن میں کچھ قیمتی کھو جانے کا درد سمایا ہوا تھا۔۔ ایک لمحے کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی اجاڑ صحرا کو دیکھ رہی ہوں جسکی پیاسی زمین صدیوں سے ایک بوند پانی کو ترسی ہوئی ہو۔۔۔ چند سیکنڈ کے لیے آنکھوں میں شناسی کی چمک ابھری مگر ایک سیکنڈ کے سویں حصے میں پھر سے اجنبیت میں بدل گئی، میں۔۔۔ وہ۔۔ آپ۔۔۔ میں گڑبڑا گئی۔۔۔اسی گڑبڑاہٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سفید مورتی نے فورادروازہ پھر سے بند کر دیا۔۔ میں نے دو تین بار دستک دی مگر جواب ندارد۔۔
میں نے باری باری حویلی کے مکینوں سے سفید مورتی کے بارے کریدنے کی بہت کوشش کی مگر مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا۔۔ میں نے ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد روبینہ کو اعتماد میں لینے کی کوشش شروع کر دی کیونکہ میں نے سنا ہوا تھا کہ ملازمین اپنے مالکوں کے ہر اچھے برے راز میں لازمی شریک ہوتے ہیں۔۔۔
روبینہ! جی۔ بی بی۔۔۔ زلیخا نے تابعداری سے جواب دیا۔۔۔ یہ ہزار روپے لو پانچ سو کا میرا بیلنس کسی ملازم سے کہہ کر ڈلوا دو اور بقایا پانچ سو تم رکھ لینا۔۔۔میں نے ہزار کا نوٹ روبینہ کی طرف بڑھایا۔۔ نہیں بی بی جی۔۔۔”میں یہ پیسے نہیں رکھ سکتی” بڑی بی بی کو پتہ چلا تو چمڑی ادھیڑ دیں گی۔۔۔روبینہ نے جھر جھری لیتے ہوئے کہا۔۔۔ طلسماتی حویلی کے بہت سے قوانین میں سے ایک قانون یہ بھی تھا کہ تائی جان اور تایا کے علاوہ ملازمین کسی سے بخشش نہیں لے سکتے تھے۔۔ ہاں! میں جانتی ہوں روبینہ مگر یہ تو صرف تمہیں اور مجھے علم ہے نہ میں تو کسی کو بتانے والی نہیں تم خود بتا دو تو اور بات ہے۔۔۔ روبینہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔میں شکار پر دانہ ڈال چکی تھی اور وہ بھی چگنے کو بے تاب تھا۔۔
“بڑی امی! مجھے بھی سر پر چمپی کروانی ہے” میں نے تائی کے پاؤں دباتی روینہ کو دیکھتے ہوئے مدعا بیان کیا۔۔ چل روبینہ چھوٹی بی بی کے سر میں تیل ڈال دے۔۔ میری بیٹی تھکی ہوئی ہے، شہر میں بھلا کہاں کوئی تیل ڈالنے والی ملتی ہے۔۔ تائی امی نے مجھے پیار سے دیکھتے ہوئے روبینہ کو حکم صادر کیا۔۔۔ بڑی امی یہاں نہیں، میں اپنے روم میں لگاؤں گی ذرا ایزی فیل ہو گا، میں نے پونی سے بالوں کو آزاد کرتے ہوئے کہا۔۔ پترساری حویلی تیری ہے جہاں دل کرے بیٹھ جاؤ۔۔ تائی اماں نے محبت سے کہا۔۔۔ روبینہ! جی۔۔ بی بی۔۔ جی۔ تم جیولری تو استعمال کرتی ہو گی نا؟؟ اس میں کافی ساری جیولری ہے ‘ تم جاتے ہوئے لیتی جانا۔۔۔مصنوعی ملٹی کلر نیکلیس کو باکس میں رکھتے ہوئے میں نے روبینہ سے کہا۔۔ جی۔۔۔ بی بی جی” بے قابو ہوتی خوشی سے جواب دیا گیا۔۔۔ روبینہ! پھوپھو نائمہ کے ساتھ ہوا بھی تو کافی برا تھا، مگر! میں نے نہ کچھ جانتے ہوئے بھی اس انداز میں کہا کہ روبینہ کو لگے میں بہت کچھ جانتی ہوں۔۔ سر میں تیل لگاتے ہاتھ لمحہ بھر کو رکے۔۔ جی! بی بی جی۔۔ پر ہم تو نوکر ذات ہی، بھلا کیا کہہ سکتے ہیں؟۔۔ کیا یہ داستان تمام گاؤں والوں کے علم میں ہے؟ اندھیرے میں نشانہ باندھا۔۔۔ جی۔۔ بی بی جی۔۔ رجب کی بھیانک موت تو اتنی وریاں گزرنے کے بعد بھی پورے پنڈ کو پہلے دن کی طرح یاد ہے۔۔۔ اتنا سوہنا سرخ انار جیسا تھا۔۔ لمبا، اوچا، جوان گبرو اور موت اتنی ظالم۔۔ چچ۔۔چچ۔۔۔۔روبینہ نے تاسف سے کہا۔۔ سفید مورتی کی کیا وہی روایتی محبت کی داستان؟؟ ذہن میں ایک ساتھ کئی سوال ابھرے۔۔۔ وڈے سائیں نے بھی تو ظلم کی حد کر دی تھی، نائمہ بی بی نے رجب سے شرعی نکاح کیا تھا، روبینہ تم بلا ججھک پوری کہانی بتاؤ، ہمیں تو بس خلاصہ ہی پتا ہے۔۔۔ تم تو یہاں کی رہائشی ہو پوری حقیقت سے آگاہ ہوگی۔۔۔میں نے آہستگی سے پوچھا۔۔۔ اگر بڑی بی بی جی کو پتہ چلا تو مجھے کوڑے مار مار کر حویلی سے نکال دیں گی میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔۔۔۔ روبینہ منمنائی ‘۔ یہ پانچ ہزار کا نوٹ رکھ لو، بچوں کے لیے میری طرف سے مٹھائی لیتی جانا، میں نے نوٹ روبینہ کی ہتھیلی پر رکھ کر مٹھی بند کرتے ہوئے اعتماد میں لیا۔۔۔میں کوئی آٹھ یا نو سال کی تھی جب رجب کی مسخ شدہ لاش نہر کے پاس سے ملی تھی۔۔۔ رجب کا باپ چاچا کریم حویلی کا ڈرائیور تھا اور اسکی ذمہ داری صرف عورتوں کو کہیں لے کر آنے جانے کی تھی۔۔وڈے سائیں کو چاچا کریم پر بہت بھروسہ تھا۔۔۔ایک بار چاچا کریم کو” ٹی بی ”کی شکایت ہو گئی تو ڈرائیوری کی ذمہ داری رجب نے سنبھال لی۔۔نائمہ بی بی دو تین بار رجب کے ساتھ قریبی پنڈ اپنی سہیلی کی شادی پر آتی جاتی رہی۔۔۔ پھر گاؤں میں یہ چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ نائمہ بی بی کا رجب کے ساتھ کوئی چکر ہے،رجب کا ایک دوست مستری احسان جو کہ اس نکاح کا گواہ بھی تھا پیسوں کے معمولی تنازع پر غصے میں آ کر وڈے سائیں کو نکاح کے بارے میں بتا دیا۔۔جس مولوی نے رجب اور نائمہ بی بی کا نکاح پڑھوایا تھا اچانک زہریلے سانپ کے ڈسنے سے موقع پر ہی ہلاک ہوگیا اور اسی رات جو کہ ”چاند کی چودھویں تھی” رجب کو وڈے سائیں نے باغ میں بلایا جو کہ حویلی کے پچھواڑے میں ہے اور اس باغ کی یہ خاصیت تھی کہ اس میں صرف سرخ گلابوں کے پودے تھے جن کی گلقند دور دور کے شہروں میں مشہور تھی، اسی باغ میں وڈے سائیں نے تیز دھار خنجر سے کئی وار کر کے رجب کو موت کی نیند سلا دیا تھا اور سب سے بڑا ظلم نائمہ بی بی کے ساتھ یہ ہوا کہ وہ اوپری منزل پر تھیں اور اپنی آنکھوں سے رجب کا قتل ہوتے دیکھا۔۔۔ بی بی کواس رات سے ایسی چپ لگی کہ آج تک کسی نے نہ انکو ہنستے اور نہ روتے نہ کسی سے بات کرتے اور نہ ہی اوپری منزل سے نیچے آتے دیکھا ہے ” تب سے وہ باغ بنجر ،اجاڑ پڑا ہے نہ کسی درخت نے پھل دیا اور نہ کسی پودے نے پھول”۔۔ مگر اس کے بعد سے چاند کی چودھویں کو پوری حویلی گلابوں کی مہک سے سرشار ہو جاتی ہے۔۔اور۔۔ اور۔۔۔۔ روبینہ بات کرتے کرتے خاموش ہو گئی۔۔اور کیا؟ میں جو دکھ اور کرب کی کیفیت میں تھی روبینہ کے کندھے کو ہلا کر پوچھا۔۔اور بی بی جی پورے پنڈ میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ چاند کی چودھویں کو رجب کی روح نائمہ بی بی کو ملنے آتی ہے۔۔۔روبینہ نے آنکھوں کو میچتے ہوئے سرگوشی میں بتایا۔۔۔ یہ تو گاؤں والوں کی کم عقلی اور تعلیم کی کمی ہے جو وہ ایسی بے بنیاد باتیں پھیلا کر خوف و ہراس پیدا کرتے ہیں۔۔۔ میں نے روح والے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا۔۔پتہ نہیں! بی بی جی۔۔کیا جھوٹ ہے؟ کیا سچ ہے؟ روبینہ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔۔ میں نے روبینہ کو تو جھٹلا دیا تھا مگر خود کو جھٹلانے میں ناکام رہی ” یاداشت میں بچپن والا سفید مورتی کا خاکہ ذہن کے پردے پر پھر سے جھلملانے لگا” اور دل پوری رفتار سے دھڑکنے لگا۔۔ مجھے اپنے آباؤ اجداد سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔ جو جھوٹی نام نہاد عزت اور انا کی خاطر کسی بے گناہ کا قتل کر سکتے ہیں۔دادا فیض رسول کے خاکے پر جا بجا خون کے سرخ دھبے نظر آنے لگے اور پھپھو نائمہ سے محبت سے کئی درجے زیادہ ہمدردی محسوس ہوئی۔۔
” سفید مورتی کا بے رنگ خاکہ ” آہ!۔۔۔۔
* میرا دل حویلی اور حویلی کے مکینوں سے اچاٹ ہو گیا، واپسی کا ارادہ باندھا مگر واپس جانے سے قبل چاند کی چودھویں کا نظارہ ضروری سمجھا تاکہ ذہن میں بیٹھی الجھنے حل ہو سکیں۔۔۔
اجلی نکھری سفیدی مائل سرمئی رات، سرخ پیراہن، لال و سنہری چوڑیاں، جھاری دار جھمکیاں، ہونٹوں پر کھلکھلاتی لپ اسٹک، بل کھاتی لمبی چٹیا جس میں کہیں کہیں سفید بال چودہویں رات کے چاند کی طرح چمک رہے تھے۔۔۔ سفید مورتی حویلی کے جنوب کی طرف اجاڑ گلاب باغ کی طرف کسی مورنی کی طرح اٹھلاتی لہراتی ارد گرد سے بے خبر جا رہی تھی۔۔۔میں دم سادھے نجانے کتنی دیر کھڑی رہی اور جب سفید مورتی پلٹی۔۔۔۔۔میری آنکھیں خوف و حیرت سے پوری طرح کھل گئیں کیونکہ لمبی بل کھاتی چٹیا میں خوبصورت سرخ کلیاں اٹکی ہوئی تھیں اور کلائیوں میں سرخ گجرے۔۔۔۔ گاؤں والے کہتے ہیں ہر چاند کی چودہویں کو نائمہ بی بی سے رجب کی روح ملنے آتی ہے۔۔۔۔