ہارورڈ یونیورسٹی کے مطابق بچے کے پیدا ہوتے سے لے کر سات سال تک کا وقت بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور یہ دور اس کی زندگی اور شخصیت پر گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔
بچے کو ماں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ ماں اور بچے کا تعلق کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ماں اپنے بچے کی اَن کہی باتوں کو بھی سمجھ جاتی ہے ۔ جب بچہ بول نہیں پاتا یا پھر تتلا تتلا کر بولتا ہے تب بھی ماں ہی ہوتی ہے جو اس کی چھوٹی چھوٹی اور بے ربط باتوں کو سمجھ جاتی ہے اور اس کی ہر شرارت پر کھل اٹھتی ہے۔
بچے ماں کے ساتھ زیادہ مانوس ہوتے ہیں کیونکہ ان کا زیادہ تر وقت ماں کے ساتھ ہی گزرتا ہے،اس لئے ان کی تربیت میں بھی ماں کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔
اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو ایک لڑکی جس کے چھوٹے ہوتے سے ہی پڑھ لکھ کر کچھ بن جانے کے خواب ہوتے ہیں جن کو وہ بچپن سے ہی اپنی ننھی مُنی چمکیلی آنکھوں میں سجا لیتی ہے ۔ وقت پَر لگا کر اُڑنے لگتا ہے معلوم نہیں کب وہ تعلیم مکمل کر کے پرائی ہو جاتی ہے ۔ ظاہر ہے شادی ایک اہم فریضہ ہے اور والدین اپنا فرض ادا کرنے میں دیر نہیں کرنا چاہتے۔
اکژ لڑکیوں کے خواب وہیں بکھر جاتے ہیں کیونکہ سسرال میں فوری طور پر نوکری کرنے کی اجازت نہیں ملتی اگر مل بھی جائے تو فیملی بڑھنے پر اس کو نوکری یا کام چھوڑنا پڑتا ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ بچوں کی تربیت زیادہ اہم ہے جب بچے بڑے ہو جائیں تو اپنے خواب یا شوق پورے کر لینا اکژ تو ان کے خوابوں کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔ لیکن یہ بھی کیا خوب کہی! کیا نوکری ان کے بچے کے بڑے ہونے تک انتظار کرے گی ؟ کیا سات سے آٹھ سال کے بعد ان کو نوکری مل پائے گی ؟ فرض کریں اگر نوکری مل جائے تو وقت و حالات اس قدر بدل جاتے ہیں کہ نوکری کرنا ایک مشکل امر بن جاتا ہے۔
بچوں کی ہر طرح کی ذمہ داری ماں پر آتی ہے چاہے اب وہ گھریلو خاتون ہو یا ورکنگ خاتون، جو خواتین کام کرتی ہیں ان کے لئے نوکری بچے اور گھر سب ساتھ لے کر چلنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے خاص طور پر آج کل جیسے کرونا وائرس کے حالات میں آن لائن تعلیم کو نوکری کے ساتھ لے کر چلنا مشکل صورتحال ہے۔ بہت کم لوگوں کو سسرال کی حمایت اور سپورٹ حاصل ہوتا ہے اور جن لوگوں کو یہ حاصل ہو جائے ان کی زندگی آسان ہو جاتی ہے، لیکن ایسا ہوتا بہت کم ہے۔
اب آتے ہیں ہم بچوں کی تربیت پر عام تصور کیا جاتا ہے کہ کام یا نوکری کرنے والی خواتین بچوں کی تربیت صحیح نہیں کر پاتیں ان کو مناسب وقت نہیں دے پاتیں کسی حد تک یہ بات صحیح بھی ہے لیکن یہاں بھی تصویر کے دو پہلو ہیں وہ یہ کہ جو خاتون سارا سارا دن گھر پر رہتی ہے، گھر کے کام دیکھتی ہے، بچوں کی ہر ضرورت کو پوری کرتی ہے، گھر والوں کی پسند نا پسند کا خیال رکھتے رکھتے اپنی صحت کو بھول جاتی ہے جب اسے یہ سننا پڑتا ہے کہ بی بی تم کرتی کیا ہو؟ تمھیں کیا پتہ کہ گھر چلتا کیسے ہے،کونسا تمھارے پیسے لگے ہیں،پیسے درختوں پر نہیں لگتے وغیرہ وغیرہ سننے کو ملتا ہے۔ گھر میں کم آمدنی کی وجہ سے ہر وقت لڑائی جھگڑا رہتا ہے۔ تب اس کی دماغی حالت خراب ہونے لگتی ہے وہ خود کو لاچار و مجبور اور دوسروں پر انحصار کرنے والی سمجھنے لگتی ہے جس سے اس کا اپنا اعتماد بھی کہیں کھو جاتا ہے۔ احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے۔اس کے سب خواب ٹوٹ جاتے ہیں۔اس حالت میں سارا غصہ،ناکامیوں کا افسوس،مایوسی لاوا بن کر اس کے اندر پکتا رہتا ہے۔جو کہیں نہ کہیں اس کی بیماریوں اور چڑچڑے پن کا سبب بنتا ہے اور جب وہ لاوا پھٹتا ہے تو بچے ہی اس کی ذد میں آتے ہیں۔
ایسی خاتون جو گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے ذہنی مریض بن جاتی ہے بات بات پر اپنا غصہ اور جھنجھلاہٹ بچوں پر چیخ چیخ کر نکالتی ہے۔کیونکہ اس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں بچتا،اس سارے سلسلے کا براہ راست اثر بچوں کی شخصیت پر ہوتا ہے،بچے کا اعتماد بحال نہیں ہو پاتا کیونکہ ماں کا اثر اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔
اس کے برعکس ایک خاتون جو نوکری کرتی ہے اپنا کماتی ہے خودمختار ہوتی ہے،سجتی سنورتی ہے، اس کو کوئی کام کرنے یا اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کسی کی طرف دیکھنا نہیں پڑتا اس میں اعتماد زیادہ ہوتا ہے اور ذہنی حالت بھی خاصی بہتر ہوتی ہے،اسے زمانے کے ساتھ چلنا آتا ہے۔وہ خود کو زیادہ خوش اور مطمئن محسوس کرتی ہے جس کا اثر اس کے بچوں پر بھی نظر آتا ہے۔
عورت کو اللّٰہ تعالٰی نے خاص صلاحیتوں اور مضبوط اعصاب سے نوازا ہے وہ بیک وقت کئی کام سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔بشرطیہ کہ وہ اندر سے مضبوط خوش اور صحت مند و توانا ہو۔تبھی وہ اپنے بچوں کی تربیت بہتر انداز میں کر سکے گی۔
لہذا یہ کہنا کہ ورکنگ خواتین بچوں کی تربیت صحیح نہیں کر سکتیں بالکل غلط ہے۔بلکہ ان کے بچے زیادہ پر اعتمادسمجھدار ہوتے ہیں کیونکہ ان کو اپنا کام خود کرنے کی بچپن سے عادت پڑ جاتی ہے جبکہ گھریلو خاتون جو ہر وقت بچوں کے ساتھ ہوتی ہے وہ بچوں کی عادات خراب بھی کر دیتی ہیں۔ بچے اپنی ماں پر زیادہ انحصار کی وجہ سے نکمے اور سہل ہو جاتے ہیں ان میں فیصلہ لینے کی قوت بھی کم دیکھنے میں آتی ہے۔
بچے کی تربیت میں گھریلو یا نوکری کرنے والی خاتون کا فرق نہیں ہوتا دراصل فرق صرف ذہنی سکون اور حالات کا ہوتا ہے لہٰذا عورت یا ماں کا اندر سے خوش و مطمئن رہنا صحت مند گھرانے کی علامت ہے۔ صحت مند گھر اور بچے کی بہترین تربیت کے لئے ماں کی اندرونی اور بیرونی صحت کا اچھا ہونا بہت ضروری ہے۔