اسکول سے گھر آنے کے بعد سے آج پورا دن ہو گیا ہر کچھ دیر بعد ہاتھ کی دو انگلیوں سے عجیب وغریب نشانات بنانے کی کوشش میں مصروف میری بیٹی نے آج اس وقت کو بھی نظر انداز کر دیا جو صرف ہم دونوں کے لئے مخصوص تھا اور جس میں وہ اپنے اسکول کی تمام سرگزشت بلا تکان بہت شوق سے مجھے بتاتی ھے۔۔۔۔۔
امی ! یہ دیکھئے حبا نے سکھایا ہے مجھے (حبا وہ بچی جس کا اسکول میں نیا داخلہ ہوا)ربیعہ بہت جوش میں تھی ان اشاروں کو بغور دیکھتے ہی میرے ذہن میں اچانک ان کے مطالب اور ان پر ریسرچ جو کچھ دن پہلے پڑھی تھی تازہ ہو گئی ۔اپنے موبائل کے
Emoticons
تو یقیناًدیکھے ہونگے آپ نے ؟ کبھی ان کا مطلب بھی جاننے کی کوشش کی ہے اور نہیں کی تو اب کر لیجئے۔۔۔۔
شاید ان تصاویر کے ذریعے اپنی بات کی وضاحت کرسکوں۔۔۔ماں باپ کی ذمہ داری ہر دور میں اپنے بچوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھنا بھی ہے،عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر آنے والی جسمانی تبدیلیاں ان کی سوچ اور فکر کو بھی تبدیل کرتی ہیں اس کو محسوس کرنا اور درست سمت کی طرف رہنمائی بھی از حد ضروری ھے۔
یہ حقیقت ہیباپ کو معاش کی الجھنوں میں اور ماؤں کو صحت اور گھریلو مسائل کے انبار میں الجھا کر ہمارے بچوں کو تنہا کردیا گیا ھے تاکہ بآسانی انہیں شکار کیا جاسکے یہ ایک باقاعدہ سوچا سمجھا منصوبہ ھے۔۔۔۔۔ایسے میں کئی بار کا سنا ہوا لیکن درست جملہ ہمیشہ ذہن میں رہتا ہے۔
“آج جنگ میدانوں میں نہیں بلکہ بند کمروں میں کمپیوٹرز، ٹی وی اور ریڈیو پر لڑی جا رہی ہے اور دشمن اسی طاقت کے ذریعے مسلمانوں پر حملہ کرتے ، وہ ہماراسماج، معاشرہ و مذہب سب کچھ بدلنا چاہتا ہے۔”
میڈیا اب جنگ کا میدان بن چکا ہے،میڈیا کے چھیانوے فی صد حصے کی کمان یہودیوں کے ہاتھ میں ہے اور ہماری خوش فہمیاں اور حسن ظن کیا اپنوں کے لئے ہوں گی جو ان کے لئے رکھی جاتی ہیں۔۔۔۔کاش اس بات کو ہم بحیثیت قوم سمجھ سکیں یہ معاملات ہمیں تقسیم در تقسیم رکھتے ھیں، کسی معاملے میں یکسو نہیں ہونے دیتے بہر حال ان حالات کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئے معاملہ نسلوں کے تحفظ کا ھے۔۔۔۔
غور کیجئے مشہور کارٹونز ،ایڈز ،گانوں کے ذریعے بار بار معصوم ذہنوں کو ان اشارات کا عادی بنایا جاتا ھے۔
بچے آپس میں بات چیت کے دوران ان کا استعمال کرتے،اور مختلف کوڈ ورڈز استعمال کرتے ہیں، بچوں کی پسندیدہ چیزوں کی خریداری کے وقت ان چیزوں پر یہ نشانات چسپاں ھوتے ہیں ،
اب یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ کس طرح اپنے بچوں کو ان شیطانی حربوں سے بچاتے ہیں۔ میرا سوال ہے۔
ہے کوئی ماں جو اس بات کو ہمارے معاشرے میں اور اپنے بچوں میں کہانیوں کی صورت میں منتقل کرے؟ہے کوئی استاد جو ٹیکنالوجی کا استعمال اپنے شاگردوں کو ان فتنوں سے بچانے کے لئے برائے آگہی کرے؟ اور۔۔۔۔۔ہے کوئی باپ جو ساری ذمہ داری ماں اور استاد کے کندھوں پر ڈال کر مطمئن ہونے کے بجائے بچوں پر نظر رکھے؟۔
ایک آرٹیکل میں پڑھا تھا:
(سلیمان علیہ السلام کے بعد کچھہ لوگوں نے باقاعدہ شیاطین کی عبادت شروع کی تھی اور عام لوگوں سے خود کو مخفی رکھنے کے لیے اشاروں اور نشانات کا سہارا لیتے تھے آج بھی ان شیطان پرستوں نے وہی طریقہ اختیار کیا ہوا ہے، آپ جس کو ہالی وڈ کی ایکشن فلم سمجھتے ہیں ہوسکتا ہے وہ ان شیطان پرستوں کے لیے مستقبل کا لائحہ عمل ہو جس میں اشاروں اور نشانات کے ذریے ان کو اپنے مختلف منصوبوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے اسی طرح ٹی وی، اخبارات، انٹرنیٹ اور وڈیو گیمز کو بھی وہ ان مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں)
اسی سے ملتا جلتا واقعہ سعودی عرب کے شہر قسیم میں ایک عرصے سے مقیم ساتویں کلاس میں پڑھنے والی میری بھانجی کے ساتھ پیش آیا جب اسے اس کی عیسائی دوست نے تحفے میں لاکٹ دیا جسے وہ ہر وقت پہنے رکھتی تھی کئی ماہ بعد یہ انکشاف ہوا کہ اسمیں ایک خفیہ درز بھی ھے اور اسمیں “فری میسن گروپ “کی تصویر کے ساتھ کچھ مخصوص شیطانی اشارات بھی تھے (جنکے متعلق اس کی دوست نے تحفہ دیتے وقت اور بعد میں بھی کوئی ذکر نہ کیا تھا )۔
یہ اور اس جیسی تمام باتیں لکھیں تو لمبی داستان بن جائے۔۔۔۔ برائے مہربانی ان کے حقائق جاننے کے بجائے سر دھڑ سے ان کے حق میں دلائل ڈھونڈتے ہوئے ان کی محافظت شروع نہ کر دیجئے ،آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔
ہماری نسلیں بہت قیمتی ہیں ان کے بچاؤ کے لئے ان کے بہت قریب رہیں ان کے ذہنوں میں اٹھتے ہوئے ہر سوال کا جواب دیں اور آنے والے دور کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر واضح کریں۔