5فروری”یوم یکجہتیٔ کشمیر” پھر گزر گیا اور کشمیر سے منسلک مسلمانوں پر عائد فریضہ ادا نہ ہوا، جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا تھا:«وَاِنِ اسۡتَـنۡصَرُوۡكُمۡ فِى الدِّيۡنِ فَعَلَيۡكُمُ النَّصۡرُ»”اوراگروہ تم سےدین (کے معاملات) میں مدد طلب کریں تو ان کی مدد کرنا تم پر لازم ہے” (الانفال، 8:72)۔
5 اگست 2019 سے بھارت کے آئینی اقدام کے تحت مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو ہندوتوا کے بے لگام اور وحشی غنڈوں کے حوالے کردیا گیا۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان نے بھارتی جارحیت کے خلاف “تحمل” (Restraint) کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ماضی میں ہماری افواج کی مدد وحمایت کی بدولت مقبوضہ کشمیر کے مسلم مجاہدین نے کئی دہائیوں سے ہندو ریاست کو اس قبیح حرکت سے روک رکھا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو ہندو ریاست میں ضم کرنے کی جسارت کر سکیں ۔ لیکن 5 اگست 2019 کے بعد سے امریکہ کی جانب سے ڈالے گئے دباؤ کی تاب نہ لاتے ہوئے پاکستان نے اُن لوگوں پر کریک ڈاؤن کرنا شروع کردیا جو مقبوضہ کشمیر میں جہاد کی کسی نہ کسی صورت میں حمایت کرتے تھے۔ وزیر اعظم صاحب نے 18 ستمبر 2019 کو تو یہاں تک کہہ دیا کہ: “اگر کوئی پاکستان سے انڈیا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ کشمیر میں لڑے گا۔۔۔تو جس پہلے شخص پر وہ ظلم کرے گا وہ کشمیری ہوں گے۔ وہ کشمیریوں کے دشمن کی طرح کام کرے گا”۔ وہ شائد یہ بات بھول گئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آخری پیغمبرﷺ نے امت کو جہاد سے غفلت اور کوتاہی برتنے سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا تھا: «مَا تَرَكَ قَوْمٌ الْجِهَادَ إلاّ ذُلّوا»”کوئی قوم جب جہاد کو ترک کر دیتی ہے تو وہ ذلیل و رسوا ہو جاتی ہے“(احمد)۔
پاکستان کی جانب سے امریکہ کی ایماء پر اختیار کی گئی “تحمل” کی اس پالیسی کی وجہ سے پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں بھارت اور چین کے درمیان جاری فوجی جھڑپوں میں بھارتی فوج کے مصروف ہونے سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ الٹا پاکستان کی قیادتیں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر ہندو ریاست کی بلا تعطل جارحیت کے شکار شہریوں کی مسلسل شہادتوں کو تماشائی بنے دیکھتی چلی آ رہی ہیں ۔ پھر یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ امریکہ ہندو ریاست کی افواج کو کیل کانٹے سے لیس کررہا ہے، ہرنئی آنے والی پاکستانی حکومت نے امریکہ کی غیر مشروط اطاعت کو جاری رکھا ہوا ہے۔
ہماری افواج کی انٹیلی جنس نے اپنے وقت کی سپر پاور سوویت روس کو افغانستان میں جہاد کی مدد و حمایت کر کے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا، تو اگر یہ انٹیلی جنس مقبوضہ کشمیر کے جہاد کی مکمل حمایت شروع کر دے تو ہندو ریاست کا کیاحشر ہو گا؟ ہماری فضائیہ کے شاہینوں نے ہندو جنگی مشینری کو فروری 2019 میں ایک چھوٹے سے محدود حملے کے ذریعے تتر بتر کردیا تھا، تو وہ اس ہندو جنگی مشینری کا کیا حال کریں گے اگر ان کے خون کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے عائد کیے گئے فرض کی ادائیگی کے لیے اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے بے پناہ اجر کے لیے گرمایا جائے؟ بدترین قسم کی داخلی تقسیم کے شکار ہندوؤں کو جس قدر زندگی سے محبت ہے اس سے کہیں زیادہ ہماری افواج کے کیپٹن محمد سرور شہید سے لے کرکیپٹن کرنل شیر خان شہید اور لالک جان شہید جیسے شیروں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی راہ میں شہادت حاصل کرنے سے محبت ہے۔ لہٰذا یہ کیا کیا شاندار اور عظیم کارنامے انجام دے سکتے ہیں اگر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے ہمارے ان شیروں کو میدان جنگ میں کھلا چھوڑ دیا جائے!
لیکن آج کے راجہ داہر،مودی کے کشمیر کے جبری انضمام پر ہماری جانب سے وہی روایتی بیانات جاری کیے جا رہے ہیں جن میں آ ر ایس ایس کے اس ہندو غاصب اور ظالم سے امن کی استدعا کی جا رہی ہے، جس کے نتیجے میں اس کو مزید شہ مل رہی ہے۔ کیا جنگ کی ضرورت اور موقع پر امن کی بات کرنا دشمن کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف نہیں؟
ایسے میں افواج پاکستان کے شیروں کو حرکت میں نہ لانے کے حق میں عوام میں سے بعض طبقات میں پھیلے”ایٹمی جنگ کے خطرے” اور” کمزور معیشت” سے متعلق اندیشوں کی بھی اس سے بڑھ کر کوئی زمینی حقیقت نہیں کہ یہ محض چند غلط فہمیاں ہیں جن کا ازالہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ کارگل سے لے کر کریمیا تک ایٹمی چھتری تلے کئی جنگیں لڑی جاچکی ہیں اور ان میں سے ہر ایک جنگ میں کسی نہ کسی ملک کا ایٹمی طاقت ہونا ایک روائیتی جنگ کو ایٹمی جنگ میں بدلنے پر منتج نہیں ہو سکا۔ اسی طرح ” کمزور معیشت” جس طرح ریاست کے کسی بھی حصے کےدفاع کے لیے جنگ نہ کرنے کا جواز نہیں ، تو پھر یہ ریاست کے کسی ایسے حصے کے دفاع کی خاطر جنگ نہ کرنے کا جواز کیسے ہو سکتی ہے ، جو حصہ اس ریاست کی شہ رگ ہونے کی حیثیت رکھتا ہو!
70 سال تک بھارت کو کبھی یہ اعتماد حاصل نہیں ہو سکا تھا کہ وہ اپنی سٹرائیک کور پاکستان کی سرحد سے بےفکر ہو کر چین کی سرحد پر منتقل کر لے۔ لیکن جنوری 2021 میں بھارت نے اپنی پہلی سٹرائیک کور پاکستان کی سرحد سے ہٹا کر چین کی سرحد پر منتقل کرنے کا آغاز کر دیا۔ ہر ریاست اپنے دفاعی اور جارحانہ منصوبے دشمن کی صلاحیت کی بنیاد پر طے کرتی ہے ۔ تو آخر مودی کو پاکستان کی جانب سے یہ بھروسہ اور گارنٹی کیسےحاصل ہو گئی کہ اسے اس بات پر پورا اعتماد ہے کہ پاکستان کشمیر کی آزادی کے لیے اپنی افواج کو کسی صورت حرکت میں نہیں لائے گا؟
معاملات اب بالکل واضح ہیں۔ پاکستان میں اس خطے کے لیے امریکی منصوبے پرمن و عن عمل ہو رہا ہے جس کے تحت ہندو ریاست کو چین کے خلاف کھڑا کرنے کیلئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے، جس میں کشمیر سے دستبرداری اور ہندو ریاست کوخطے کے تھانیدار کے طور پر قبول کرنا شامل ہے۔ اور اس مقصد کے لیے کشمیر کی مزاحمتی تحریکوں کو FATF کے نام نہاد دباؤ کے تحت ختم کرنا، بھارتی جارحیت کے سامنے “تحمل” کی پالیسی اختیار کرنا، ٹویٹس اور بیانات کے ذریعے ،اور نام نہاد عالمی برادری کے سامنے مسئلہ کشمیر بلند کرنے کے نام پر پاکستان کی عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرناشامل ہے۔
ایسے میں مسلمانوں کو ایک ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو ان کی اس ڈھال کا کام دے جس کے پیچھے رہ کر لڑتے ہوئے وہ اپنے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرائیں اور جس کے ذریعے وہ ظلم سے تحفظ حاصل کر سکیں۔رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا:«إِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ وَيُتَّقَى بِهِ» “بے شک امام ڈھال ہے، جس کے پیچھے رہ کر تم لڑتے ہو، اور اس کے ذریعے تم تحفظ حاصل کرتے ہو“(مسلم)۔