ہر سال فروری کے مہینے میں مرگی کے مرض کا عالمی دن دنیا بھر میں منایا جاتا ہے جس کا بنیادی مقصد اس مرض کے بارے میں معالجین، مریضوں اور ان کے اہلخانہ میں آگاہی اور شعور کو بیدار کرنا ہے۔مرگی کے بارے میں عوام الناس میں بہت سے ایسے توہمات پائے جاتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے مریض اور ان کے اہلخانہ کو کئی قسم کی سماجی پریشانیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ میرے مریضوں میں ایسی نوجوان بچیاں بھی ہیں جن کے ہنستے بستے گھر اس بیماری کی وجہ سے اجڑ چکے ہیں۔ اس لئے آئیے اس مرض کے بارے میں کچھ آگاہی اور شعور حاصل کرتے ہیں۔
مرگی کا مرض پاکستان میں بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ ملک میں تربیت یافتہ نیورولوجسٹ اور ماہرامراض مرگی ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے بالخصوص سرکاری اسپتالوں میں مرگی کے مرض کے ماہرین، علیحدہ وارڈز کا قیام اور تشخیص کیلئے طبی آلات کی کمی کو پورا کیا جانا ضروری ہے۔ہر سال فروری کے مہینے میں مرگی کے مرض کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ جب میری تعلیم کا ابتدائی دور تھا تو مجھے پتہ چلا کہ سارے انسانی جسم کو دماغ کنٹرول کرتا ہے تو اس وقت ہی میں نے نیورولوجسٹ بننے کا فیصلہ کرلیاتھا۔ مرگی بھی ایک دماغی بیماری ہے۔ یہ بظاہر ایک خوفناک بیماری لگتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر قابل علاج بیماری ہے۔ہمارے ملک میں اس بیماری کے صحیح علاج کے لئے معالجین اور مریضوں کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن میں تربیت یافتہ ڈاکٹروں کی کمی، ادویات کی قلت اورعام آدمی کی پہنچ سے دور ادویات کی بلند قیمتیں بہت بڑا چیلنج ہیں۔
اس وقت پاکستان میں بیس لاکھ سے زیادہ مرگی کے مریض سرکاری توجہ کے منتظر ہیں کیونکہ سہولیات کی کمی اور انتہائی مہنگی ادویات مرگی کے مرض پر قابو پانے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیا میں مرگی کا تناسب 0.5 سے 1 فیصد کے درمیان ہے لیکن پاکستان میں اس بیماری کا تناسب ایک فیصد ہے جسے بہت زیادہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم مناسب علاج سے اس بیماری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مرگی کا مرض جادو، بھوت یا آسیب کی وجہ سے لاحق نہیں ہوتا ہے۔اگر کوئی بیٹھے بیٹھے گم صم ہوجاتا ہویا کسی کو دورے یا جھٹکے پڑتے ہوں، اگر کسی کے اچانک ہاتھ پاؤں ٹیڑھے ہوجاتے ہوں ، دانتوں کے نیچے زبان یا منہ سے جھاگ آتا ہو تو یہ مرگی کے مرض کی علامات ہیں۔اب اس کا علاج شروع کیا جانا ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ اس بیماری کا علاج ممکن ہے اور اسے دوسری بیماریوں کی طرح علاج اور دوائیوں سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ تاہم علاج میں تاخیر اس بیماری کو مزید پیجیدہ بنادیتی ہے جس کی وجہ سے اس کا علاج طویل ہوسکتا ہے۔
مرگی ایک اعصابی بیماری ہے اس لئے دیگر بیماریوں کی طرح اس کامناسب علاج ضروری ہے۔ ادویات کے ذریعہ اس بیماری کو 70 فیصد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ 95 فیصد معاملات میں یہ بیماری موروثی نہیں ہے۔ مرگی کی بہت سی قسمیں ہیں جن کے موثر علاج کے لئے صحیح تشخیص ضروری ہے۔ مرگی کے دورے کے دوران مریض کو جوتا سونگھانا یا اس کے چہرے پر تھپڑ مارنا یا اس پر پانی چھڑکنا اور منہ میں انگلی ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں مریض کو ایک طرف لٹادینا چاہئے اور یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اسے کوئی چوٹ نہ لگے۔ اگر مرگی کا دورہ 3 منٹ سے زیادہ وقت تک رہتا ہے توپھر مریض کو فوری طور پر اسپتال منتقل کرناچاہئے۔ اگر کسی بھی خاندان میں مرگی کا مریض ہے تو وہ اپنے معالج سے ابتدائی طبی امداد کے بارے میں مکمل معلومات ضرور حاصل کریں تاکہ ہنگامی صورتحال سے نمٹا جاسکے۔ پاکستان میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے اور چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں علاج معالجے کی مناسب سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔اس کے علاوہ غربت کی وجہ سے زیادہ تر لوگ مہنگا علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے ہیں ۔ اس لئے وہ روحانی علاج کی طرف چلے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مرگی کے بہت سارے مریضوں کو غیرضروری طور پر بہت تکلیف اٹھانی پڑجاتی ہے۔
مرگی کے مرض پر حکومتی سطح پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ملک بھر میں ضلعی سطح کے تمام سرکاری اسپتالوں میں مرگی کے مناسب علاج کو یقینی بنانا ضروری ہوچکا ہے اورہر بڑے سرکاری اسپتال میں مرگی کے مریضوں کے لئے خصوصی وارڈز کا قیام وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔مرگی کے مرض کی ادویات کی کمی اور بلیک مارکیٹ میں ان کی فروخت مریضوں اور معالجین دونوں کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں کمی، ان پر سبسڈی اور ان کی قلت کے مسئلے کو بھی حل کیا جانا ضروری ہے۔ مرگی کی جعلی ادویات اور بلیک مارکیٹنگ بھی مریضوں کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر متعلقہ اداروں کو خصوصی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چونکہ یہ انسانی جانوں کو بچانے کا مسئلہ ہے اس لئے حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو مریضوں کی تکالیف کو دور کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔