خوشی کا جذبہ اور دکھ کا جذبہ اللہ تعالی نے انسان میں ودیعت کیا ہے۔ خوشی اور غم کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ ہم خوشی کی بات کرتے ہیں ۔ تو خوش رہنا اور خوش رکھنا بظاہر بہت مشکل لگتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو خوش کرنا سب سے مشکل کام ہے۔
“سنتے ہیں خوشی بھی ہے زمانے میں کوئی چیز
ہم ڈھونڈتے پھرتے ہیں کدھر ہے یہ کہاں ہے؟”
مگر یہ تلاش صرف ہماری سوچ ہے۔اگر ہم اپنے اردگرد کا بغور جائزہ لینے والے ہوں تو ہمیں اپنے اردگرد رہنے والے افراد کے مزاج کا علم ہو گا۔ یوں ہمیں ان کے مزاج سے آگاہی ہوتی ہے۔ دیکھا جائے تو لوگ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے خوش ہو جاتے ہیں۔ بس شرط ہے کہ ان کے مزاج کے مطابق ہو۔ مثلا میرے بچے ایک چاکلیٹ سے خوش ہو جاتے، میرے میاں کی پسند کا کھانا بن جائے وہ خوش ہو جاتے ہیں ، اپنی ساس کی خدمات کا اعتراف کروں تو وہ خوش ہو جاتی ہیں، اپنی بہنوں کو کال کروں تو وہ خوش ہو جاتی ہیں۔ میری والدہ مجھے مختلف دعائیں اور وظائف پڑھنے کا کہتی ہیں جب میں ان کو بتاتی ہوں کہ میں نے وہ پڑھی اور ان کو اکسیر پایا وہ خوش ہو جاتی ہیں۔ میری دیورانی بہت سی چیزیں بہت خوبصورت بناتی ہیں، وہ کیک بہت اچھے بناتی ہیں میں دل کھول کر تعریف کروں وہ خوش ہو جاتی ہیں۔ میری دوستوں کو میرے وقت میں سے کچھ وقت درکار ہوتا ہے میں ان کو دوں تو وہ خوش ہو جاتی ہیں۔ الغرض میں نے دیکھا ہے کہ لوگ بہت چھوٹی چیزوں سے خوش ہو جاتے ہیں۔ اور جب ہم دوسروں کو خوش کرتے ہیں تو خود بھی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ کیونکہ خوشی کی شعا ئیں ہوتی ہیں جس پر ڈالی جائیں وہ بھی رونق رونق ہو جاتا اور جہاں سے پھوٹتی ہیں وہ بھی۔ خوش کے اظہار کے لئے مسکرانا بھی کافی ہوتا۔ لمبے لمبے قہقہے ضروری نہیں خوشی سے بھرپور بھی ہوں۔ مسکراہٹ لگتی بھی بھلی ہے۔ کہیں پڑھا تھا کہ آپ کے مسکرانے میں چہرے کے کم مسلز استعمال ہوتے ہیں ، جبکہ غصے یا دکھ کے تاثرات دکھانے کو چہرے کے بہت سے مسلز کھنچتے ہیں اور تکلیف میں ہوتے ہیں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں، ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ مسکرانے والے تھے” حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں ” آپ صلی اللہ علیہ وسلم قہقہ نہیں لگاتے تھے بلکہ تبسم فرماتے تھے صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج کا اندازہ آپ کے چہرہ انوار سے لگایا کرتے تھے، وہ فرماتے ہیں ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مسرور ہوتے تو ان کا چہرہ انور خوشی سے ایسے جگمگا اٹھتا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو” ۔
خوش رہنا اور مسکرانا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ دین دار طبقے سے تعلق جڑ جانے کے بعد لوگ سخت مزاج ہو جاتے ہیں۔ خوش ہونا یا مسکرانا مذہب کے خلاف لگتا ہے تو ایسی صورت میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دنیا صرف دار العمل ہے یہاں مصائب و مشکلات آئیں گی۔ اصلی، حقیقی اور دائمی خوشیاں تو آخرت ہی کی ہیں۔ ان کے لئے آج محنت کرنی ہے۔ اپنے ساتھ رہنے والے افراد کے حقوق ادا کرتے رہنا ہے۔ ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا خیال رکھیں۔ تاکہ ان کے دل دین کے لئے اور دین دار طبقے کے لئے نرم ہو جائیں۔ اپ کی کوشش کے باوجود کچھ بہتری نہیں آتی تو بھی جان لیں کہ ہم سے کوشش سے زیادہ مطلوب بھی نہیں ۔