صبح لوگوں کے جاگنے سے پہلے کسان اپنی زمین پر پہنچتاہے اور زمین کو نرم کرتاہے اور اس میں موجود وہ تمام غیر ضروری پودوں اور چھاڑ جھنکاڑ کو اچھی طرح صاف کرتاہے کیونکہ اس کے پیش نظر مطلوبہ پیدوار ہوتی ہے ۔ یعنی مقصد کا حصول ہوتاہے ۔بالکل ایسی طرح انسان کے دل ہوتے ہیں اور ان کا معاشرہ ہوتاہے جس میں انسان رہتے بستے ہیں ۔ان معاشروں میں مختلف قسم کے تحریکیں پیدا ہوتیں ہیں یا کی جاتی ہے جن کے پیدا کرنے والوں کے خاص مقا صد ہوتے ہیں ۔ جن مقاصد کے حصول کے لیے یہ کسان (لیڈر) انسانی دلوں کی اور معاشرے کی زمین پر محنت کرتے ہیں اور پھر ان زمینوں پر اپنے پیش نظر مقصد کے حصول کے لیے بیج ڈالتے ہیں ۔یہ بیج اچھے بھی ہوسکتے ہیں اور برے بھی جن سے پھل دار اور میٹھے پھلوں کے درخت بھی پروان چڑھ کر انسانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں اور ان بیجوں سے خاردار جھاڑیاں اور کڑوے کسیلے پھلوں کے درخت پروان چڑھتے ہیں ۔ جنہیں انسان تو کیا جانور بھی منہ لگانا پسند نہیں کرتے لیکن کسان جو بوتاہے وہی کاٹتا ہے یہ تو قدرت کا قانون ہے ۔
درجہ بالا تمہید اس لیے پیش خدمت ہے کہ بات کو سمجھنے میں آسانی رہے ۔ گزشتہ کئی مہینوں سے کراچی کی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے جابجا جہاں اور تشہیری بینر آویزاں ہیں وہاں اس طرح کے بینر بھی نظر آرہے ہیں کہ ” حق دو کراچی کو” ہم ڈیڑھ کروڑ نہیں تین کروڑ ہیں”، مردم شماری دوبارہ کرائی جائے “، بلدیاتی انتخابات جلد کراؤ ” کوٹہ سسٹم کوختم کیا جائے” وغیر وغیرہ ۔ یہ سارے مطالبات جب انسان کرتاہے جب اس کے ساتھ حق تلفی کی جائے گویا یہ محرومیاں ہیں جن کے سدّباب کے لیے آج اس قسم کے مطالبے سامنے آرہے ہیں ۔آزادی کے بعد جب کراچی کی آبادی چند لاکھ ہوا کرتی تھی اور کراچی پاکستان کا دارلخلافہ ہوا کرتاتھا ۔ یہ شہر اپنی ایک الگ اسلامی شناخت رکھتا تھا یہاں کے لوگ پڑھے لکھے تھے ، باشعور تھے اپنی اولادوں کی تعلیم و تربیت میں خاص توجہ دیتے اور ان کو اعلٰی تعلیم دلواتے لوگوں کا رجحان ان کی محبت دین کے ساتھ وابستہ تھی ۔ یہ شہر وسیع روزگار کے مواقع رکھنے اور امن و امان کا گہوارہ ہونے کی وجہ سے پورے پاکستان کے لوگ یہاں روزگار کے سلسلے میں آتے اس شہر میں آسانی سے روزگار مل جاتا ۔ یہاں محبتیں تھی تمام لسانی اکائیاں مل جل کر اس شہر اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی۔اس وجہ سے اس شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا یہ شہر دیکھتے ہی دیکھتے اتنا وسیع ہوا کے اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے پہنچنے کے لیے ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ اس شہر کی ایک خاص پہچان تھی اور وہ اسلام تھا جس کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جماعت اسلامی کے ساتھ دلی تعلق رکھتی تھی یہی وجہ تھی کہ یہاں باہمی محبت کا ایک ماحول تھا ۔ اور تین مرتبہ کراچی کے شہریوں نے جماعت اسلامی کو اس شہر کی خدمت کا موقع دیا ۔ اس شہر کی خدمت میں جماعت اسلامی نے بھی جان جی سے اپنا کردا ر ادا کیا اور کراچی کے شہریوں کو مایوس نہ کیا ۔ کراچی دنیا کے نقشے پر عروس البلاد بن کر ابھرا اور روشنیوں کا شہر کہلایا ۔ا ب کراچی پاکستا ن کا معاشی حب بن چکاتھا اور پورے پاکستان کی خوشحالی کراچی کے ساتھ نتھی ہوگئی تھی ۔مگر بین الاقوامی اور اندرون ملک دشمن عناصر کو یہ بات کیسے پسند آسکتی تھی کہ پاکستان ترقی کرے اور دنیا میں نمایاں مقام حاصل کرے اس کے لیے ایک سازش تیار کی گئی جس کے زریعے اس ترقی اور خوشحالی کے سفر کو روکا جا سکتاتھا ۔ اور وہ تھا محرومیوں کا بیج جو کہ سازشی عناصر نے ملک کے ناعاقبت اندیش جمہوری اور فوجی حکمرانوں اور بیوروکریٹس کے ہاتھوں میں دیا ان تمام لوگوں نے اس خدمت کو خوب انجام دیا اور کراچی کے شہریوں میں محرومیاں پیدا کی ۔ یہ محرومیا ں دراصل بیج ہے جو کہ انسانی دلوں کے اندر نفرت ، تعصّب دین بیزاری کے خاردار پودے اور جھاڑیاں اگارہی تھی ۔ اس جنگل کو بین الاقوامی دشمن بھی اور کہتے ہیں کہ نادان دوست سے دانا دشمن اچھا ہوتاہے خوب سیراب کررہے تھے ۔ اس خدمت میں سول اور فوجی حکمرانو ں نے اپنا کردار خوب ادا کیا ایسے تمام قائد ین کو غیر دانشمندی سے کراچی کی عوام کے سامنے ہیروں بنا کر کھڑا کردیا ۔سب سے پہلے یہ خدمت پاکستان کی پیپلز پارٹی نے انجام دی پھر اس کی خدمت چند مذہبی علماء نے انجام دی یہاں کی آبادی کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کیا اس کے بعد اس خدمت کے لیے الطاف حسین آگے آئے اور مہاجر قومی مومنٹ بناکر رہی سہی کسر پور ی کردی ۔ ایک نے روٹی ،کپڑا اور مکان دوسرے نے مسالک کا تحفظ میں اسلام کا تحفظ دیکھا اور اس کو ہر دوسرے مسلک کا فرد کافر نظر آیا تیسرے نے مہاجر یعنی اردوبولنے والوں کے حقوق کی بات کی مگر چالیس سال کا تجربہ آج بتارہا ہےکہ یہ دعوے محض دعوے تھے جن کی کوئی حقیقت نہیں تھی ۔ حقوق کی جدوجہد اور محرومیوں کا خاتمہ اوّل دن سے ان جماعتوں کے ایجنڈے کا حصّہ ہی نہیں تھا ۔لیکن کراچی والوں کو ایک خواب دکھانے اور سراب کے دھوکے میں مبتلا کرنے میں یہ بازیگر اور مداری کامیاب ہوگئے تین دہائیں کے خوابیدہ کراچی کے عوام اب بیدار ہورہے ہیں اور ان کو یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ کراچی کی خدمت کی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے ۔یہ ایک دودن کی تاریخ نہیں بلکہ یہ پاکستان اور کراچی کی ابتدا ء سے آج تک کی تاریخ ہے جو اس بات کی گواہ ہےکہ جماعت اسلامی ہی اپنے اندر عوام کی خدمت کی صلاحیت رکھتی ہے ۔چندسالوں سے تو جماعت اسلامی عوام کےمسائل کے حل اور ان کے حقوق کی جدوجہد میں مسلسل میدان عمل میں ہے وہ پانی کا بحران ، شناختی کارڈ کے آسان حصول ، کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور کے ای کا ظالمانہ کاروائی ،اور بلدیاتی مسائل جن میں کچرے ڈھیر کی صفائی شامل ہے ایک اہم کردار ادا رہی ہے ایک ایسے وقت میں جب موجودہ حکمران اور سابق حکمران جماعتیں ایک دوسر ے پر کرپشن کی کیچڑ اچھالنے کے کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں ۔
حقوق کراچی کا نعرہ دراصل صرف نعرہ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جس کا ایک سفر ہے بدحالی سے سے خوشحالی کی طرف کراچی کو اس کی اصل شناخت دلانے کی جوکہ اسلامی ہے کیونکہ خوشحال کراچی خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے کراچی کی عوام کو اس تحریک میں شامل ہوکر ان تمام بین الاقوامی اور اندرون ملک عناصر کی سازش کو ناکام بنانا ہوگا جن کے ایجنڈے کا پہلا نقطہ ہے محرومیوں کو پیدا کرکے اپنے ناپاک عزائم کا حصول ، کیونکہ جب تک محرومیاں معاشرے میں موجود رہیں گی ان ظالموں کی سیاست چمکتی رہے گی ۔