انسانیت کا معاشی استحصال

دنیا بھر میں قوم رنگ ، زبان ، کی بنیاد پر وجود میں آئیں نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والی قوم صرف پاکستان ہے جو اسلام کو نظریہ حیات مانتی ہے زندگی کے ہر گوشے میں رہنما صرف اسلام کے سوا کچھ اور نہیں ہو سکتا بھلا وہ ایمان و عقائد ہو ، عبادت ہو، معاملات ہوں ، خاندانی نظام ہو ، معاشرت ، معیشت ، سیاست ہو ریاستی امور ہوں ، چاہے قانون و اصول حکمرانی ہوں اسلام ایک رسمی مذہب ہی نہیں بلکہ پوری انسانی زندگی کا رہنما اور بقا کا ضامن بھی ہے یہ پوری انسانیت کے لئے راہ ہدایت ہے اور آج کے دور میں راہ نجات بھی اسلام ہی سے وابستہ ہے پوری انسانیت جس ظلم و جبر ، استحصال ، نا انصافی ، خاص کر معاشی استحصال کے شکار ہیں مجبور انسانیت تباہی کے دھانے پر کھڑی اور بے بس ہو چکی ہے۔

معیشت کا چند ہاتھوں میں کنٹرول اور انسانیت میں بڑھتی بے روز گاری افلاسی مجبوری بے بسی استحصال آخر کس وجہ سے ہے اس کے پیچھے دنیا کا نظام معاشی یعنی سرمایا دارانہ نظام ہے جس کا مطلب ہے صرف امیر کو حق حاصل ہے کہ وہ معاشرے کو لیڈ کرے یعنی دولت والوں کو مزید دولت کمانے کے چانس ، امیر امیر سے امیر تر ، غریب غریب سے غریب تر ، اب یہی دنیا میں استحصال کا سب سے بڑا سبب بن رہا ہے غریب آدمی ظلم و جبر کے اس نظام میں بہت پس رہا ہے نہ روزگار ، نہ تعلیم ، نہ صحت ، صرف انسانی حاکمیت ، غلامی ، اندھیرا، استحصال جس کے اثرات پوری دنیا میں پوری شد و مد کے ساتھ پھیلے ہوئے ہیں ۔

اس سے انسانی حکمرانی انسانوں کو اپنا غلام بنا لیتی ہے پھر من چاہے فیصلے ہوتے ہیں بلکہ منوائے جاتے ہیں قوموں کو معیشت کی چکی میں جکڑ کر پھر اپنے فیصلے مسلط کئے جاتے ہیں یوں انسانیت اپنے حقوق سے پوری طرح محروم ہو جاتی ہے مغلوب قوم کا نہ اپنا کوئی فیصلہ ہوتا ہے نہ ویژن نہ کنٹرول بلکہ اسے صرف فیصلے ماننے ہوتے ہیں عوام بے کسی مجبوری کسمپر سی کی زندگی گزرنے پر مجبور ہو جاتی ہے امیر زادوں کا پورا نیٹ ورک قوموں پر حکمران بن جاتا ہے اس میں قابلیت صرف امیر ہونا ہے کچھ ٢ سے ٣ % خاندان اپنی اجاراداری قائم کرتے ہیں اور قوم پر بزور بازو حکمرانی کی جاتی ہے الیکشن کو سلیکشن، صرف چہرے بدلتے نظر آتے ہیں باقی حکمرانی وہی ، لوگوں کی زندگی وہی رہتی ہے۔

آپ اس ملک عزیز ہی کو لے لیں ٧٠ سال سے کچھ خاندان ،وڈیرہ شاہی ، جاگیرداری نظام میں زندگی بسر کر رہے ہیں ٹوٹل دولت کا ٩٥% ان خاندانو ں کا ہوتا ہے اور پوری قوم صرف ٥ % سرمایہ پر ہی گزارا کرتی ہے چہرے بدلتے ہیں خاندان وہی رہتے ہیں اب اس قدر مجبور عوام اگر سیاسی شعور سے نا بلد ہو تو کیسے عوامی نظام وجود میں آ سکتا ہے ، کیسے نظام تعلیم ٹھیک ہو سکتا ہے ، کیسے بے روزگار قابل آدمی روزگار لے سکتا ہے ، اس تسلسل میں انسانی حواس صرف سانس لے سکتے ہیں اس کو جینے کا کیا حق حاصل ہوتا ہے اسی تسلسل کی جنگ کبھی کمیونزم ، سوشلزم ، اور کسی انسان ساختہ معاشی مادی نظام کی پوری دنیا میں آواز بلند ہوتی ہے لوگ دیوانہ وار شامل ہوتے ہیں نتیجہ وہی نکلتا ہے جو کسی تبدیلی کو حاصل نہیں کر پاتا اگر کسی صورت نتائج حاصل بھی کرے تو صرف مادی حصول دولت اس کے اندر سے انسانی فطرت کو نکال پھینکتی ہے پھر ایک بڑے امتحان سے دو چار ۔

سارا عالم اسلام، اسلام کو ضابطہ حیات مانتا ہے بلکہ ایمان رکھتا ہے ظاهر ہے اس میں اسلام کا معاشی نظام بھی ہے جو ٣٠ سال سے زائد عرصہ رائج بھی رہا پوری انسانی تاریخ اسکا متبادل آج تک نہ دے سکی آج وہ کدھر ہے ؟ کیا اگر یہ نظام انسان دوست فطرت انسانی پر ہے تو کہاں رائج ہے۔؟