سورج کی گرم کرنیں فاروق حسن کے آفس میں قبضہ کیے ہوئے تھیں۔ یہ معروف سائیکالوجسٹ تھے۔ ان کے کلینک پر ہی نہیں بلکہ ان کے آفس میں بھی بہت لوگوں کا رش ہوتا تھا۔ عموماً یہ آفس میں کسی سے ملاقات نہیں کرتے تھے۔ لیکن آج وہ اپنے آفس میں مسٹر تیمور علی اور مسز تیمور کے ساتھ بات چیت میں مشغول تھے۔
“تو تیمور صاحب آپ کیا کہہ رہے تھے؟ آپکے بیٹے کا رویہ گھر میں ٹھیک نہیں ہے۔ کیا آپ مجھے اس کی وجوہات بتا سکتے ہیں؟” فاروق حسن نے آنکھوں پر لگی عینک کے پیچھے سے تیمور کو گھورا تھا۔
“میں بتا تو چکا ہوں، کہ میں اور میری بیوی نہیں جانتے کہ کیا مسئلہ ہے۔ وہ اتنی بدتمیزی کرتا ہے، اٹھارہ سال کا ہوگیا ہے، بالکل ہاتھ سے نکلتا ہی جارہا ہے۔ جھوٹ تو اُس کی زبان پر رکھا رہتا ہے۔ اور اگر ہمیں مسئلہ پتا ہوتا تو آپکے پاس کیوں آتے؟۔” تیمور کچھ خفا ہوا تھا۔
“مسئلے کو حل، صرف مسئلہ جان کر نہیں کیا جاسکتا ہے، اُس کی وجہ، اُس کی جڑ کا پتا ہونا ضروری ہے۔ یہ تو پتا ہو پہلے کہ ایسے رویے کے پیچھے کیا وجہ ہے۔” فاروق حسن نے نہایت دھیمے لہجے میں کہا تھا۔
“دیکھیں تیمور صاحب! میں آپ سے کچھ سوالات کروں گا، آپ مجھے ان کے جوابات دیں گے، کیونکہ آپ اپنا ذاتی مسئلہ لے کر یہاں آئیں ہیں تو آپ سے کچھ سوال بھی ذاتی ہوں گے۔ اور یہ کیے بغیر میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ جو سوال آپ سے کیا جائے آپ اُسی کا جواب دیں، اور جو مسز تیمور، آپ سے کیا جائے آپ اُس کا دیں گی”
ماحول بوجھل ہوتا جا رہا تھا۔
“کیا آپ دونوں کے تعلقات گھر میں ٹھیک ہیں؟ بہت لڑائی جھگڑا ہوتا ہے؟”
“لڑائی جھگڑا تو ہر گھر میں ہوتا ہے سر، یہ کوئی نئی بات تو نہیں”
“آپ میری بات کاٹ رہے ہیں تیمور۔ لڑائی جھگڑا بالکل ہوتا ہے، لیکن یہ بچے کی نفسیات پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ بہت سے میری مراد یہ ہے کہ گھر میں کس طرح کا رویہ ہوتا ہے آپکا؟ میں نے دو سیشنز لیے ہیں آپکے بیٹے کے ساتھ اس کے بعد ہی میں آپ سے اس طرح کے سوالات پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔”
“ہم نے اپنے بیٹے کی بہت اچھی تربیت کی ہے۔ آپ چاہیں تو میری بیوی سے پوچھ لیں، آپ یوں بات کا پورا رخ والدین کی طرف نہیں موڑ سکتے”
“جی آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، غلطی صرف والدین کی نہیں ہوتی۔ لیکن اُس غلطی کا بیج بونے میں والدین کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے۔ تیمور صاحب بچپن میں بچے نا بہت لچک دار ہوتے ہیں، آپ انھیں جس سانچے میں ڈھالتے ہیں وہ بالکل ویسی ہی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ میں آپ کو ایک کہانی سناتا ہوں”
ایک سات سالہ بچہ ہے تابش،
اس کا باپ خبار پڑھتے ہوئے اُسے آواز دیتا ہے ”کہ بیٹا ایک گلاس پانی پلاؤ“
”جی بابا لایا“ تابش فرش پر لگے ٹائلز پر کھیلتے ہوئے گیا۔ آج کل نا اس بچے نے نیا کھیل سیکھ لیا تھا، کہ کالی ٹائلز پر پیر رکھنا ہے اگر سفید ٹائلز پر رکھا تو آؤٹ۔ اسی طرح اچھلتے ہوئے وہ پانی لینے گیا اور لے کر آیا، اپنے بابا کو گلاس دیتے ہوئے اسے واپس جانے کی اتنی جلدی تھی کہ گلاس میں سے پانی زرا چھلک کر ان کے اخبار اور کپڑوں پر گر گیا۔۔۔ ایک زور دار تھپڑ کی آواز لاؤنچ میں گونچ اٹھی۔
”یہ کیا کیا؟. اندھے ہو تم؟ تمہیں نظر نہیں آتا ہے؟ کیا ہاتھوں میں جان نہیں ہے؟ جاؤ یہاں سے“ تابش کی امی شور سن کر جلدی سے چولہے پر روٹی چھوڑ کر آجاتی ہیں۔
”کیا ہوگیا ہے؟ بچہ ہے۔ کوئی بات نہیں ہے، ہو جاتا ہے“
”تم چپ رہو بالکل! یہ تمہاری ہی دی گئی شہہ ہے جو اسے بگاڑے چلی جا رہی ہے۔ دن بھر کام کیا ہے تمہارا؟“ یہ صاحب اپنی بیگم پر ہی برس پڑے۔
”آپ غصہ نا ہوں، میں کپڑے نکالتی ہوں آپ چینج کرلیں“
”کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جاؤ دونوں، شکل نہیں دیکھنی مجھے تم دونوں کی“
ان کی بیگم جلدی سے بچے کو گود میں اٹھا کر کمرے میں لے جاتی ہیں۔
وہ بچہ آہستہ سے کہتا ہے”مما میں نے نہیں گرایا تھا پانی ، وہ خود گرا“ اور اس کی امی کہتی ہیں
”تابش! بالکل چپ ہو جاؤ، تم نے تنگ کرکے رکھ دیا ہے، تمہاری وجہ سے گھر میں کتنی لڑائیاں ہوتی ہیں، تم ہی ہر مسئلے کی وجہ ہو، اب کمرے میں ہی رہو، آرہی ہوں میں“ آنکھوں میں ڈھیروں شکوے لیے وہ اپنی ماں کو جاتے دیکھ رہا تھا۔ پانی تو اس سے غلطی سے گرا تھا نا۔ لیکن اس کی امی کو ابھی اس کے بابا کا غصہ ٹھیک کرنا تھا۔
”اوہ خدایا، یہ کیا ہوگیا، اس لڑکے کے چکر میں یہ روٹی یہیں رہ گئی“
”یہ کب سے کیا جل رہا ہے؟ تابندہ؟ کیا سونگھنے کی حس ختم ہوگئی ہے تمہاری؟ تابندہ کیا جل رہا ہے؟“ تابش کے ابو زور زور سے چیخ رہے تھے، اور اس کی امی جلی ہوئی روٹی ٹیشو میں چھپا رہی تھیں، اور چھوٹا تابش ایک کونے میں سہما بیٹھ گیا تھا۔)
“تو تیمور صاحب کیا آپ بتائیں گے کہ اب تک جو کچھ ہوا ہے بچے کے ساتھ اس سے اس کے ذہن پر کیا اثر پڑا ہوگا؟ اور اگر اسی طرح کی چیزیں مستقل ہوں تو آپکے خیال میں بچے کو کیسا ہونا چاہیے؟
“ہم آپ سے یہ کہانیاں سننے نہیں آئے، ہمیں حل چاہیے”
“آپ میسز تیمور، آپ کچھ کہیں گی؟”
“اممم! جی میں کیا کہوں”
“اس کے آگے کیا ہوا یہ تو سنیں”
(وہ جو بچہ ہے نا دبک کر ایک کونے میں بیٹھ گیا ہے۔ اب تھوڑی دیر بعد اس کے بابا اُس کے پاس آتے ہیں۔ انھیں اپنا بیٹا دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا نظر آیا۔
”آہ تو یہ رہے آپ! ادھر آؤ بابا کے پاس جلدی سے، لڑکے روتے نہیں ہیں،یہ دیکھو زرا کتنا رویا ہے بھئی ناک بھی بہہ رہی ہے،چھی چھی، ادھر آؤ اٹھ کر، بی آ بریو بوائے، دا اسٹرانگ ون۔“ تابش مسکراتے ہوئے جلدی سے ان کی گود میں آکر بیٹھ گیا، لاڈ میں گلے میں ہاتھ ڈال کر کندھے پر سر رکھ کر اپنے بابا کے بالوں میں انگلیاں گھمانے لگا۔
” دروازے پر طاہر انکل آئے ہیں، ان سے جا کر کہہ دو کہ بابا نہیں ہیں! شاباش جلدی سے جاؤ“
”لیکن بابا آپ تو ہیں, مما تو کہتی ہیں جھوٹ نہیں بولنا چاہیے“
”تمہاری اماں تو بہت کچھ کہتی ہیں۔ وہ تو کبھی مانا نہیں، بابا سے زبان چلانا بھی غلط بات ہے۔ کیا یہ بات یاد ہے مما کی؟“
”جی بابا سب یاد ہے، تب ہی تو کہہ رہا ہوں۔“
”تابش فوراً جاؤ اور کہہ دو ان کو۔ بڑے تم نے سچ بول لیے، اپنے وقت میں کیسے تم جھوٹ بول رہے ہوتے ہو۔“ مزید بحث کرنے پر تابش کو اندازہ تھا کہ اسے کس چیز کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ خاموشی سے چلا گیا۔
”طاہر انکل بابا کہہ رہے ہیں کہ وہ گھر پر نہیں ہیں! آپ واپس چلے جائیں، جب آئیں گے تو وہ کال کرلیں گے“
”اوکے بیٹا، ایک بات سنو“
”انکل بابا نہیں ہیں“
”ہاں ٹھیک ہے میں بعد میں آ جاؤں گا۔ لیکن سنو بابا جب گھر آئیں تو ان کو بولنا کہ انسان اگر بگڑے حالات اور اولاد کا ذمہ دار خود ہوتا ہے نا تو دنیا آپکے منہ سے زبان کھینچ لیتی ہے، اور آپ ہکلاتے رہ جاتے ہیں“ تابش اچھا کرکے واپس کمرے میں آ جاتا ہے۔
”بول دیا میں نے بابا“
”شاباش، کچھ کہا تو نہیں انھوں نے؟”
“کہہ رہے تھے، دنیا کے پاس زبان ہے، اور حالات بگڑے ہیں“
”ہیں؟ کیا بول رہے ہو؟“
”افففف! آپکو سمجھ نہیں آتی کیا ایک بار میں؟“
”ہاہاہا اتنے بڑے بڑے جملے، تابندہ دیکھو تو، کتنے مزے سے بول رہا ہے“)
“رکیے فاروق صاحب، آپ بات کہاں سے کہاں لے جا رہے ہیں؟ ہمیں نہیں سننی آپ کی یہ کہانیاں۔ آپ سے مسئلہ حل نہیں ہونا، آپ بول دیں۔ یوں بیٹھا کر اور یہ سب سنا کر وقت ضائع نہ کریں۔”
“جی تیمور بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آپ یہ سب کہہ کر ہمیں کہنا کیا چاہتے ہیں؟” میسز تیمور نے بھی اپنی چپ توڑ دی تھی۔
“ہم یہاں اب ایک سیکنڈ کے لیے بھی نہیں رکیں گے۔ آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو”
فاروق حسن خاموشی سے دونوں ہاتھ باندھے تیمور صاحب اور ان کی اہلیہ کو آفس کے کیبن سے نکلتا دیکھتے ہوئے گردن افسوس سے جھکا کر تیکھا سا مسکراۓ تھے۔
انسان خود سے ہو جانے والی غلطیوں کے دفاع میں ہمیشہ کسی ایسے کو تلاش کرتا ہے جس کو وہ اس غلطی کے لیے ذمہ دار ٹھرا دے۔ وہ کبھی مانتا ہی نہیں کہ کسی بگاڑ میں اُس کا اپنا کتنا حصہ رہا۔