ہمارا تعلیمی نظام اس قدر فرسودہ اور پرانا ہو چکا ہے کہ اب یہ وقت کی انتہائی اہم ضرورت بن گیا ہے کہ اس میں غیر معمولی تبدیلیاں لے کر آئی جائیں۔ نہ صرف نصاب کو بدلا جائے اور پورے نظام کر بہتر بنایا جائے بلکہ اسے اپ گریڈ کیا جائے ـ
آج ٹیکنالوجی نے اس قدر ترقی کر لی ہے وقت و حالات بدل گئے ہیں۔ دنیا ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے مزید یہ کہ کرونا وائرس نے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ لیکن نہیں بدلا تو ہمارا صدیوں پرانا نصاب۔ ہم آج بھی اپنے بچوں کو حساب میں تھیورمز کے رٹے لگوا رہے ہیں ـ
آج جب ہر طرف ہنر یا مہارت کی بات ہو رہی ہے اور جو وقت کی اہم ضرورت بھی ہے وہاں ہم اپنے بچوں کو رٹا لگانے کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ کیونکہ جتنا اچھا رٹا ہو گا جتنا لمبا لکھا ہو گا اتنے ہی اچھے نمبر بھی آئیں گے۔ اس نمبر کی دوڑ میں جو سب سے آگے ہو گا اسی کو اچھے کالج یا یونیورسٹی والے داخلہ دیں گے ورنہ مستقبل تباہ ہو جائے گا۔ یعنی بچوں کی ذہنی قابلیت و اہلیت کو نمبروں پر جانچا جاتا ہے اور مستقبل صرف حاصل کردہ نمبروں پر منحصر ہے ـ
یہی وجہ ہے کہ میرٹ میں پوزیشن نہ بننے پر ہماری نوجوان نسل خودکشی کی طرف مائل ہوتی ہے کیونکہ ان کے اور ان کے گھر والوں کے خواب کم نمبر آنے پر چکنا چور ہو جاتے ہیں ـ
ہمارے آج کے نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں اُٹھائے بے روزگار ہیں۔ خاک چھانتے اور جگہ جگہ مارے پھرتے ہیں لیکن اچھی نوکری نہیں ملتی۔ اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہمیں وہ پڑھایا ہی نہیں جاتا جو وقت اور مارکیٹ کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہماری سوچ کا بھی کافی عمل دخل ہےاور ہمارے دماغوں میں بھی ڈالا جاتا ہے کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہم پر بڑی کمپنیاں اپنے دروازے کھول دیں گی نوکریاں دینے کے لئے ہمارے آگے پیچھے گھومیں گی نہ جانے کونسا قارون کا خزانہ ہمارا منتظر ہو گا۔ جبکہ حقیقت بہت بھیانک ہوتی ہے ہماری سوچ اور خواب بہت اوپر چلے جاتے ہیں جو ہمیں چھوٹے چھوٹے کام کرنے سے منع کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ڈپریشن اور اس جیسے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ـ
آخر میں جس کو نوکری نہیں ملتی وہ مایوس ہو کر تھک ہار کر پڑھانے کا پیشہ اختیار کر لیتا ہے۔ طاب جو شخص مجبوری کی حالت میں اس پیشے کو اپناتا ہے وہ کیسے اس قوم کو علم کی روشنی سے منور کر سکتا ہے۔ انگریزی کے اساتزہ وہ ہوتے ہیں جن کو انگریزی تک بولنی نہیں آتی۔ اسلامیات اردو تو کوئی بھی پڑھا سکتا ہے۔ جب مہارت نہیں اس ایک مضمون میں کوئی ڈگری نہیں تو کیسے وہ بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگا سکتے ہیں ؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے جسکا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ـ
پھر آتا ہے ہمارا تعلیمی نظام جس میں کوئی قوانین نہیں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ بس ہر گلی کے کونے پر اسکول کھول دیا جاتا ہے یا کھولنے کا لائیسنس دے دیا جاتا ہے۔ ان اسکولوں کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ فیس کم رکھی جاتی ہے اسی وجہ سے اچھے استاد مہیا نہیں ہوتے۔ چونکہ گورنمنٹ اسکولوں کا ان سے بھی زیادہ برا حال ہوتا ہے لہذا لوگ مجبور ہوتے ہیں کہ ان گلی محلوں کے اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوائیں جہاں اساتذہ بھی اسی گلی محلے کے ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح ان کے آنے جانے ک کرایہ بچ جاتا ہے اور اسکول کو کم تنخواہ پر استاد مل جاتا ہے اب بچہ کیا سیکھتا ہے اس کی کسی کو پرواہ نہیں ہوتی۔ کیونکہ اسکولوں کو صرف ایک کاروبار کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ـ
ہمارے ہاں بھیڑ چال کا رواج ہے۔ سب ایک دوسرے کی پیروی کرتے ہیں۔ فلاں کا بیٹا انجینئیر ہے تو میرا بیٹا بھی انجینئیر ہی بننا چاہئیے۔ فلاں کی بیٹی ڈاکٹر ہے تو بس میری بیٹی بھی ڈاکٹر ہی ہونی چاہئیے۔ عام طور پر تصور کیا جاتا ہے کہ میرا بچہ نالائق ہے کسی قابل نہیں۔ والدین یہ نہیں سوچتے کہ بچے کا رجحان کس طرف ہے اسے اسی فیلڈ میں تعلیم حاصل کرنے دی جائے۔ ہر بچہ دوسرے بچے سے مختلف ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات ہم بھول جاتے ہیں ـ
اس رویے کے پیچھے بھی کئی محرکات کارفرما ہیں۔ ایک تو یہ کہ والدین اور بچوں کی کیرئیر کونسلنگ نہیں کی جاتی۔ اب پھر بھی بڑے شہروں میں کونسلنگ کا نام سننے میں آتا ہے لیکن ان اداروں کی تعدار آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ان کی فیس بہت زیادہ ہے کہ ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے ـ
ترقی یافتہ ممالک میں اساتذہ کو خاص طور پر ٹریننگ دی جاتی ہے اور اس پیشے کو خاص احترام حاصل ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ان کو تنخواہوں سے بھی محروم رکھا جاتا ہے ـ
ہمارے ملک میں نااتفاقیوں کا راج ہے۔ جو قوم ایک چاند پر متفق نہیں ہو سکتی وہ ایک نصاب پر کیسے متفق ہو سکتی ہے۔ ہر صوبے کا اپنا نصاب ہے جس کی وجہ سے تعلیمی نظام کا کوئی معیار نہیں رہا ـ
اس کے علاوہ پرائیویٹ اور گورنمنٹ اسکولوں حتٰی کہ میٹرک، او اینڈ اے لیول کے نمایاں فرق کی وجہ سے بھی احساس کمتری بڑھتا جا رہا ہے۔ ہماری تعلیم کا معیار انگریزی کو سمجھا جاتا ہے۔ جس کی انگریزی اچھی ہے اس کو بہت ذہین اور قابل سمجھا جاتا ہے۔ اسی کو آگے ترقی کے مواقع بھی حاصل ہوتے ہیں ـ
اگر تعلیمی میدان میں نمایاں تبدیلیاں نہ کی گئیں تو ہمارا تعلیمی معیار بہت گر جائے گا ـ
میرے خیال میں درج ذیل نکات پر غوروفکر کی ضرورت ہے ـ
1ـ گورنمنٹ کے اسکولوں پر کام کیا جائےـ اس کے معیار میں بہتری لائی جائے۔ اچھے اور معیاری اساتذہ میرٹ پر بھرتی کئے جائیں۔ ان کو ٹریننگ دی جائے۔ ان اساتذہ کو وقت پر تنخواہیں دی جائیں۔ چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے۔ جب گورنمنٹ کے اسکولوں کا معیار بہتر ہو گا تب کوئی پرائیویٹ اسکولوں کو اتنی فیس نہیں دے گا اس کے علاوہ یہ فرق بھی مٹ جائے گا ـ
2ـ تمام صوبوں کا نصاب ایک کیا جائے تاکہ پورے ملک میں ایک ہی معیار کو قائم کیا جاسکے ـ
3ـ فرسودہ اور صدیوں پرانا نصاب بدلا جائے۔ بچوں کو اسکلز سکھائی جائیں ان کے شوق اور رجحان کو دیکھتے ہوئے ان کی تربیت کی جائے تاکہ وہ دورانِ تعلیم ہی اپنا جیب خرچ اٹھا سکیں ـ
4۔ اردو نصاب میں شاعروں کی زندگیوں اور عشقیہ شاعری کو رٹوانے کی بجائے ان کی تربیت کی جائے اردو کے رموز سکھائے جائیں اپنی قومی زبان کو آسان بنا کر سکھایا جائے تاکہ اس کو فروغ دیا جا سکے ـ
5۔ اسلامیات میں قرآنی آیتوں کو ترجمے کے ساتھ شامل کیا جائے تاکہ قرآن مجید کی سمجھ پیدا ہو۔ جب سمجھ ہو گی تبھی ہمارا عمل سدھرے گا ـ
6۔ نصاب میں وہ پڑھایا یا سکھایا جائے جس سے عملی زندگی میں فائدہ ہو۔ تھیوری کی بجائے پریکٹیکل کو فروغ دیا جائے ـ
7۔ لائیبریری کے استعمال کو فروغ دیا جائے ـ
8۔ غریب اور متوسط طبقے کے لئے وظائف مقرر کئے جائیں تاکہ وہ لوگ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکیں ان کو فیس کی یا خرچے کی پریشانی نہ ہو اور اپنے بچوں کو چاہے لڑکا ہو یا لڑکی ان کو محنت مزدوری پر لگا کر پیٹ پالنے پر نہ لگائیں ـ
بین الاقوامی اداروں کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی بہت کم ہے۔ ہم آج تک ایسا کوئی نظام مرتب نہیں کر سکے جو وقت کی ضرورت کے مطابق ہو اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے۔ اگر ابھی مناسب اقدامات نہ کئے گئے تو بہت دیر ہو جائے گی ـ