کہتے ہیں کہ اپنی تکلیف تو جانور بھی محسوس کرتا ہے لیکن انسان کو اشرف الخلومات اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ دوسروں کے درد کو بھی بالکل ویسا ہی محسوس کرے جس طرح اپنی کسی تکلیف کو کر سکتا ہے ۔دوسرں کے درد کو محسو س کرنے والے ہی درحقیقت انسانیت کے منصب پر فائز ہوسکتے ہیں ۔وہ لوگ جن کا جینا مرنا دوسروں کے لیے ہو وہ عظمت کی بلندی کو چھو لیتے ہیں ۔ہم اپنے گرد و پیش میں نظردوڑائیں تو ہمیں ایسی شخصیات مل جاتی ہیں جن کو دیکھ کر انسان رشک کرتا ہے ۔مرحوم عبدالستار ایدھی،شہید حکیم محمد سعید ،مادام رتھ فاؤ،مدر ٹریسا کو آج دنیا اس لیے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے کہ انہوں نے مذہب ،رنگ و نسل سے ماورا ہو کر انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنایا اورلوگوں کے دکھوں کا درماں بننے کے لیے اپنا دن رات ایک کردیا ۔آج یہ شخصیات دوسری دنیا میں جانے کے بعد بھی کروڑوں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں ۔ان شخصیات نے ثابت کیا کہ انسان صرف اپنے کام سے جانا جاتا ہے اور آپ اگر اللہ کی مخلوق کی بے لوث ہو کر خدمت کریںگے تو اللہ تعالیٰ کبھی آپ کو بے نام نہیں ہونے دے گا ۔
رب العزت نے انسان کو اس دنیا میں بھیجنے کے بعد دو قسم کے کام اس کے سپرد کئے. پہلے کام کو”حقوق اللہ”کہا گیا اور دوسرے کو ”حقوق العباد”کے نام سے پکارا گیا۔نماز ،روزہ ،حج ،زکواة وہ عبادتیں ہیں جو حقوق اللہ کے زمرے میں آتی ہیں جبکہ اللہ کے بندوں کی دلجوئی ،ان کے دکھ درد شریک ہونا ،ان کے حقوق ادا کرنا حقوق العباد میں شامل ہوتا ہے ۔یہاں اللہ تعالیٰ نے بھی واضح کردیا ہے کہ وہ اپنے حقوق تو معاف کرسکتا ہے لیکن حقوق العباد کی معافی وہ نہیں دے سکتا ۔اس کی معافی وہی دے سکتا ہے جس کی آپ نے حق تلفی کی ہو یا کسی اور طریقے سے اس کا دل دکھا یا ہو ۔اس یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حقوق العباد یا دوسروں کے کام آنے کی ہمارے مذہب میں کتنی زیادہ اہمیت ہے ۔ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے اس ضمن میں بڑی خوبصورت بات کہی ہے ۔۔ان کا شعر ہے کہ !
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں ،بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندا بنوں گا جسے خدا کے بندوں سے پیار ہوگا ۔
علامہ اقبال نے یہاں بڑی دلکشی کے ساتھ اس بات کی وضاحت کی ہے کہ در حقیقت خدا کے بندوں سے پیار ہی کسی انسان کو ایک ایسا شخص بناتی ہے جو دوسروں کے لیے قابل تقلید ہو ۔اپنے ذاتی مفاد کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانا ،ناجائز طریقے سے دولت سے جمع کرنا اور اس طرح کے دوسرے عمل آپ کو خدا کے بندوں سے دور کردیتے ہیں اور پھر آپ اپنی خواہشوں کے غلام بن جاتے ہیں ۔بظاہر آپ کے پاس سب کچھ موجود ہوتا ہے لیکن آپ حقیقی مسرت سے کوسوں دور ہوتے ہیں ۔یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ ذات باری تعالی نے انسان کو انسانیت کی خدمت کے لئے دنیا میں بھیجاہے ۔اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہوتا تو اس کے لئے فرشتے ہی کافی تھے۔ضرورت مندوں،محتاجوں اور مسکینوں کے کم آنا ہی انسانیت کی معراج ہے۔ جس دل میں انسانیت کی خدمت کا نہیں وہ دل نہیں پتھر کا ٹکڑا ہے۔تمام انبیاء کرام کی تعلیمات کا خلاصہ بنی نوع انسان کی خدمت ہے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ایک اچھا انسان اپنے اخلاق کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے اور اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وجہ تخلیق کائنات انسان کی فلاح و بہبود اور اس کی دنیاوی خیریت اور آخروی نجات کے لئے ہے، تاکہ وہ اعلی مقام انسانیت حاصل کر سکے۔ تخلیق کائنات کے بعد اربوں انسان اس دنیا میں آئے اور چلے گئے لیکن زندہ صرف وہ رہ گئے جنہوںنے بنی نو ع انسان کی بھلائی کے لیے اپنا سب کچھ وقف کردیا ۔آج بھی دنیاانسانیت کے لیے کام کرنے والے صوفیاء کرام ،سائنسدانوں ،ڈاکٹروں ،مفکروں ،دانشوروں ،ادیبوں ،علماء کرام اور سماجی شخصیات کے ناموں کو اپنے دلوں میں بسا کر بیٹھی ہے جبکہ اس کے برعکس فرعون ،چنگیز خان ،ہلاکو خان ،نمرود ،شداد اور ان جیسے دوسرے انسانوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے کہ کیونکہ یہ افراد بے پناہ طاقت رکھنے کے باوجود انسانیت کے لیے خطرہ بنے رہے ۔ان کا ظلم آج بھی ان کا پیچھا کرررہا ہے ْ اور شاید اسی لیے خواجہ میردرد بھی یہ کہنے پر مجبور ہوئے تھے کہ !
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں