9 جنوری یومِ شہادت استاذ العلماء نستعلیقِ مشرقیت نمونہ اسلاف علامہ حکیم محمود برکاتی شہید نور اللّٰہ مرقدہ شریف۔
علمی و دینی حلقوں میں یہ خبر یقینا دکھ و اضطراب کے ساتھ سنی جائے گی کہ طبِ قدیم کے فاضلِ جلیل اور فلسفہ و معقولات کے محققِ شہیر علامہ حکیم محمود احمد برکاتی مورخہ 9 جنوری2012 ء کو اپنے مطب میں ایک بجے کے لگ بھگ سفاک ظالموں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور شہید ہوگئے۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون۔
حکیم محمود احمد برکاتی ایک نامور علمی و دینی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے پردادا مولانا حکیم دائم علی کا تعلق بہار سے تھا۔ وہ اپنے زمانے کے نامور طبیب تھے۔ طب میں ان کے پُروقار شہرت کے باعث نواب ٹونک نے انہیں اپنا شاہی طبیب مقرر کیا تھا۔ حکیم دائم علی نے بہار سے ترک سکونت کرکے ٹونک میں مستقل رہائش اختیار کرلی تھی۔ حکیم محمود صاحب کے دادا مولانا حکیم برکات احمد ٹونکی اپنے عہد میں فلسفہ و معقولات کے امام سمجھے جاتے تھے۔ ان کی کتاب “اتقان العرفاں فی ماہیة الزماں” نے علامہ اقبال کو متاثر کیا تھا۔ حکیم صاحب کے والد مولانا حکیم محمد احمد بھی علم طب کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کر گئے۔ یہ پورا خانوادہ خیر آبادی سلسلۂ علم و فکر سے وابستہ تھا اور مولانا حکیم محمود احمد برکاتی کو پورے برصغیر پاک و ہند میں سلسلۂ خیر آبادی کا نمائندہ عالم سمجھا جاتا تھا۔
حکیم صاحب اکتوبر 1926ء کو ٹونک میں پیدا ہوئے۔ حکیم صاحب ایک خانوادئہ علم و عرفان سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں فاضل ادب الہ آباد بورڈ سے 1941ء میں اور فاضل دینیات 1943ء میں مدرسہ معینیہ اجمیر سے کیا۔ طب کی اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ دہلی تشریف لے گئے جہاں طبیہ کالج سے 1948ء میں فاضل الطب و الجراحت کی ڈگری لی۔ اس کے علاوہ دینی تعلیم میں انہیں مولانا معین الدین اجمیری اور مولانا حکیم محمد شریف اعظم گڑھی سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی سے بھی ان کے بڑے قریبی تعلقات رہے تاہم ان سے کسبِ علم کا مرحلہ طے نہ کرسکے۔
حکیم صاحب خود بھی بڑے پایہ کے عالم، فلسفی اور طبیب تھے۔ انتہائی وسیع المطالعہ اور علمی ذوق کے حامل تھے۔ انہوں نے کتابیں بھی لکھیں، تراجم بھی کیے اور پرانی کتابوں کی تدوین و ترتیب کا فریضہ بھی انجام دیا۔ ان کی کتابوں میں “سیرت فریدیہ”، “فضلِ حق خیر آبادی اور سن ستاون”، “معین المنطق”، “سفر و تلاش”، ترجمہ”اتقان العرفاں فی ماہیة الزماں”، “کشکولِ برکاتی”،”ولایتی بیویاں ولایتی شوہر”، “شاہ ولی اللہ اور ان کے اصحاب”، “شاہ ولی اللہ اور ان کا خاندان” ، “شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی”، “حیات حکیم برکات احمد ٹونکی”، ترجمہ”مشاہدات فرنگ”، “کتاب الصیدنہ فی الطب”، “مولانا معین الدین اجمیری کردار و افکار”، “مولانا معین الدین اجمیری تلامذہ کا خراجِ عقیدت”، “جادئہ نسیاں”، “الروض الموجود فی تحقیق حقیقت الوجود”، “نشانِ راہ”، “منتخب مقالات” اور چند غیر مطبوعہ کتب شامل ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آگئے تھے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے بھی پر زور موئد تھے۔ ملک کے نامور اطبائے کرام میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ ہمدرد یونی ورسٹی نے انہیں طب مین ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند دی تھی۔ وہ صرف پاکستان ہی کے نہیں بلکہ برصغیر کے نامور طبیب تھے۔
وہ نظریاتی اعتبار سے فکرِ مودودی سے بہت متاثر تھے اور اس میں انہیں خاصا غلو تھا۔ اپنے مخصوص علمی و فکری رجحانات رکھنے کے باوجود وہ دوسرے مسالک کے اہلِ علم کا احترام کرتے اور ان سے مخلصانہ روابط رکھتے تھے۔ اس حوالے سے ان کی ذات اتحاد بین المسلمین کا عملی مظہر تھی۔
حکیم صاحب علم و اخلاق کے مجسمۂ شرافت تھے اور ان کی شہادت صحیح معنوں میں انسانیت کا قتل ہے۔ روزِ حشر ان کے پاکیزہ خون کے چھینٹے ان کے قاتلوں کو ابدی سزا دلانے کا باعث بنیں گے۔ اللہ ربّ العزت انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
ایک نجی چینل نے ان کی خبر وفات پر “ایک ضعیف العمر حکیم سمیت سات افراد قتل” کی سلائیڈ چلائی جو غالباً ان سے متعلق میڈیا پر پہلی خبر تھی۔ اس خبر کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ قوم اپنے اکابر سے کس درجہ غافل ہوچکی ہے۔
راقم الحروف سے ان کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے جو اس دنیا کی مدت زمانی کے مطابق تقریباً 12 برسوں پر محیط ہے لیکن ہم نے ان 12 برسوں میں کم و بیش 3 دہائیوں کا فاصلہ طے کرلیا تھا۔ بکثرت ملاقاتیں اور علم کے متعدد و مختلف پہلوئوں پر بھرپور ابحاث۔ میری اور ان کی عمر کے مابین 54 برس کا فاصلہ تھا مگر شوقِ علم کے جذبے نے گویا اسے معدوم کرکے رکھ دیا تھا۔ وہ سر تاسر علمی انسان تھے جن کا علم، عمل کے سانچے میں ڈھل چکا تھا۔
ان کی زندگی کے آخری ایام میں ملاقاتوں کی تعداد نسبتاً بڑھ گئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے ان سے کئی نسبتیں حاصل ہوگئیں۔ ان کی زندگی کی آخری علمی نشست، زندگی کی آخری شب کو میرے ہی ساتھ رہی۔ اس نشست میں نے انہیں “الواقعة” کا تازہ شمارہ پیش کیا، گویا یہ ان کی خدمت میں پیش کیا جانے والا آخری تحفۂ علمی تھا۔ ان کی زندگی کا آخری مضمون بھی راقم کے زیر ادارت مجلہ “الواقعة” ہی میں شائع ہوا ہے۔ ان کی ایک کتاب “ولایتی بیویاں ولایتی شوہر” بھی راقم ہی نے شائع کی تھی۔ راقم کی ایک کتاب “اسلام اور عصر جدید” پر حکیم صاحب نے تبصرہ بھی لکھا تھا جو ادارہ معارف اسلامی کراچی کے جریدے “معارف فیچر سروس” میں شائع ہوا تھا۔
ان کی خبر وفات سے اس قلبِ حزیں کی جو کیفیت ہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔ ہم گناہگار بارگاہِ عز و جل میں ان کی مغفرتِ کاملہ کے لیے دعاگو ہیں اور اپنے آنسوئوں میں نہلاکر انہیں ہمیشہ کے لیے اپنے دل کے قبرستان میں دفن کرتے ہیں۔