شادیوں کا سیزن ہے۔ ہر طرف خوشنما لباس پہنیں خواتین۔ دیدہ زیب اور دلفریب انداز ۔ لاکھوں روپے کے جوڑے اور زیورات۔ کوئی پوچھے کہ لاکھ روپے کا عروسی لباس کیوں خریدا؟ تو پتہ چلتا ہے کہ حضرات لاکھ روپے کا جوڑا خریدنے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے خرید بھی لیں تو کیا ہرج۔ کم سے کم قیمت عروسی جوڑا بھی پندرہ بیس ہزار سے کم نہیں۔ ایک دن کے لیے پہنا جانے والا جوڑا۔ اس پر اتنی فضول خرچی۔ اس بات کا دفاع اس طرح کہ ہم لاکھ روپے کا جوڑا خرید سکتے ہیں۔
معاشرے کے یہ تمام رنگ ڈھنگ اس فکر میں یا شاید تکلیف میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ ہم کیا تھے اور کیا ہو گئے ہیں۔
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں
کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا
کیا اگر کسی کے پاس وسائل کی فراوانی ہے۔ تو اس کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ لاکھوں روپے کے جوڑے سلوائے۔ جبکہ وسائل کا اظہار کرنے کی اور بھی بہت سی صورتیں موجود ہیں۔ پھر کیوں ان صورتوں کو اختیار نہیں کرتے ہم آج یورپ ہم سے آگے ہے۔ ہم یورپ کی تقلید کرنا چاہتے ہیں۔ ان جیسی ترقی کے خواہاں ہیں۔ لیکن معیارات زندگی میں ہم نے طمع اور نمود و نمائش کو جگہ دے رکھی ہے۔ تو کیونکر ہم اس مقام کے اہل ہو سکتے ہیں۔ جن کا اہل یورپ ہے۔ ہمارے ہاں خیرات و صدقات کے نام پر بچیوں کو جہیز بھی دیا جاتا ہے۔ مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ بھی۔ غریب رشتے داروں کی جائز و ناجائز خواہشات بھی پوری کی جاتی ہیں۔ غریب کے علاج معالجے کے لیے رقم بھی دی جاتی ہے۔ لنگر خانے بھی موجود ہیں۔ لیکن کوئی بھی ایسا منصوبہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ جس پر معاشرے کا آسودہ حال طبقہ پیسہ لگائے۔ اور اس سے ملک و قوم اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے۔ اپنے آپ کو بہتر بنا سکے۔
جرم ضعیفی کی سزا سے بچ سکے۔ لیکن آج سے ایک صدی پہلے یورپ کے آسودہ حال طبقہ یہ بات جان چکا تھا کہ ان کو اپنی خیرات کہاں لگانی چاہیے۔ کہ جہاں سے ملک و قوم اپنے آپ کو مضبوط سے مضبوط تر بنا سکے۔
انڈریو کارنیگی ، امریکہ کا ایک بہت بڑی کاروباری شخصیت رہی ہے۔ انڈریو نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک لوہے کی بھٹی میں بطور مزدور کیا۔ لیکن اپنے وژن اور محنت کی بدولت امریکہ کا ایک بہت بڑا سرمایہ دار بن گیا۔ ایک وقت آیا کہ اس کی کمپنی امریکہ میں سپلائی ہونے والے خام لوہے کا سب سے زیادہ حصہ پیدا کرتی تھی۔ بیسویں صدی کا آغاز تھا کہ انڈریو نے یہ بات محسوس کی کہ آنے والے دور میں امریکہ سپر پاور ہو گا۔ اپنی حاکمیت کو اس دنیا میں برقرار رکھنے کے لیے، جس چیز کی ضرورت اس کی قوم کو ہے۔ وہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان کا پکا کھلاڑی بننا ہے۔ لہٰذا اس نے اپنی دولت کا بڑا حصہ سائنس و ٹیکنالوجی میں ریسرچ ، لائبریوں اور تعلیم کے لیے وقف کر دیا۔ آج ہمارے ملک کے سرمایہ دار لنگر خانوں میں پیسہ لگاتے ہیں، درباروں میں پیسہ لگاتے ہیں، پی۔ایس۔ایل میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ لیکن کسی نے کبھی ریسرچ کو گرانٹ دینے کے بارے میں نہیں سوچا۔
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
مختصراً جب تک ہم نمود و نمائش پر مبنی لاحاصل زندگی کو نہیں چھوڑیں گے۔ تب تک ہم اپنی سوچ کو نئی جہتوں سے روشناس نہیں کروا سکتے اور نہ ہی اپنا حقیقی مقام حاصل کر سکتے ہیں۔