وطن عزیز پاکستان کو قائم ہوئے 74برس ہو چلے ہیں۔ میں نے پاکستان بنتے نہیں دیکھا لیکن اپنے بزرگوں اور اساتذہ کی زبانی تحریک پاکستان کے لیے مسلمانوں کی جِدو جُہد کی لازوال داستانیں اور مسلمانانِ برصغیر کی عظیم مالی اور جانی قربانیوں کی وُہ ایمان افروز داستانیں سنی ہیں کہ جو آج بھی ہمارے قلوب کے لیے تقویت ایمانی کا سبب ہیں۔ اُن کی ان لازوال جسمانی و مالی قربانیوں کا مقصد یہ تھا کہ اپنے دینی نظریہ کی آبیاری کر کے ایک ایسا وطن آباد کریں کہ جہاں دین اسلام کے اصولوں کے مطابق امانت، اہلیت،دیانت اورعدالت کی بنیاد پر ایسی حکومت قائم کر سکیں۔ جہاں اسلامی نظام کے تحت ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے کہ جس کی بنیاد احترامِ آدمیت، تکریمِ انسانیت اور ایسی انسانی مساوات پر قائم ہو۔ جہاں محدود گروہی، لسانی، طبقاتی اور جغرافیائی عصبتیں مفقود اور معدوم ہوں۔
لیکن شومئے قسمت کہ بانیان پاکستان کے بعد وطن عزیز کا عنانِ اقتدار بجائے نیک صالح حریت پسند صاحبِ ایمان، مسلمان اہل فکر و دانش کے بجائے تحریک پاکستان کے ان بھگوڑے جاگیرداروں، نوابوں، وڈیروں اور چوہدریوں کے ہاتھ آیا کہ جو انقلاب کے ایام میں ایسے کونے کھدروں میں رو پوش ہو گئے تھے کہ جیسے وہ برصغیر پاک و ہند کے باسی ہی نہ ہوں۔ اقتدار پر مسلط یہ گروہ اور افراد غیر ملکی نو آبادیاتی حکمرانوں کے وہ سابقہ ایجنٹ تھے کہ جن کو تحریک کے ایام میں اسلام پسند قوم پرستوں کے خلاف جاسوسی کرنے اور انقلابیوں کی طاقت کو کچلنے میں مدد دینے پر انعام کے طور پر بڑی بڑی جاگیروں، انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا تھا، ان میں کوئی نواب بن گیا تھا کوئی رائے بہادر اور کوئی ارباب۔
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد کچھ عرصہ یہ ملّت فروش تو اس خوف مارے خاموش رہے کہ ان کے ساتھ ملک و ملت کے خلاف غداری کی پاداش میں خدا جانے کون سا سلوک روا رکھا جائے گا۔ لیکن بعد ازاں فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام اور جمہوریت کو برائے نام اختیار کرنے کی بناء پر تحریک پاکستان کے یہ بھگوڑے اور ملت فروش عناصر اپنی دولت،ثروت، طاقت، دھونس، دھمکی اور اپنی جاگیروں، محکوم مزارعوں، دہقانوں، کاشتکاروں اور ملازمین کے ووٹوں کے بل بوتے پر قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ کے اراکین منتخب ہوتے چلے گئے اور اپنے طبقہ کے سیاسی گٹھ جوڑ کی بنا پر وزارتوں اور اہم حکومتی مناصب پر قابض ہوگئے اور آج تک قابض چلے آرہے ہیں۔
ان 74 برسوں میں ہماری اسلامی ریاست اور پاکستان کے عوام کے ساتھ ان نا اہل، خائن،بد دیانت اور بے انصاف حکمرانوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔
مشہور چینی کہاوت ہے کہ مچھلی کے جسم میں خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس کا سر خراب ہو جاتا ہے۔بد قسمتی سے پاکستان کے حکمران جو قومی جسد میں سر کی مانند ہیں، گل سڑ کر خراب ہو چکے ہیں۔ ان کا ذہن، دماغ، عقل، فکر اور شعور خستہ و خراب ہوچکا ہے۔ لہذا ان کی وجہ سے عوام الناس میں بھی فکر و نظر کی ایسی خرابی دَر آئی ہے کہ وہ قومی احساس زیاں سے محروم ہو گئے ہیں۔
پاکستان اتنی آسانی سے نہیں بنا تھا’’ جس قدر سمجھ لیا گیا ہے‘‘۔ بیاس اور ستلج ’’ویسے ہی خشک‘‘ نہیں ہوئے۔ پاک دھرتی پر ان کی’’ روانی فطرت ‘‘نے ایسے ہی نہیں روک دی۔ انہوں نے پاکستان کیلئے ہجرت کرنے والے لاکھوں مسلمانوں کا لہو پیا تھا۔ راوی کا پانی آج بھی سرخ ہے۔ وہ گواہی دے رہا ہے کہ پاکستان خون کے دریا سے گزر کر بناتھا۔ کسی کو بھی یقین نہیں آتا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی انتھک کاوشیں مقصود پائیں گی۔
الغرض قائد نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا آج سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ آپ ؒ پاکستان کے قیام کے بعد محض 13ماہ زندہ رہے۔ ان کی زندگی میں تو ’’پاکستان‘‘ تمام گروہوں کو شامل کرکے چلنے کی پالیسی پر گامزن رہا، مگر آج ہم کیا کررہے ہیں، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ ملک میں تین دفعہ مارشل لاء لگا۔ مگر دھڑلے سے لگایا گیا۔اور آج بھی ویسے ہی حالات پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ۔
اگر قائد اعظمؒ کی شخصیت کے حوالے سے بات کی جائے تو مشہور برطانوی صحافی بیورلے نیکلز نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ورڈِکٹ آن انڈیا‘‘ میں محمد علی جناح کو ہندوستان میں اہم ترین شخصیت قرار دیا تھا۔ اپنے اس بیان کی دلیل میں اُنہوں نے لکھا ہے کہ جناح آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے تھے اور اگر وہ نہ ہوتے تو ہندوستان مکمل طور پر قتل و غارت اور انارکی کی بھینٹ چڑھ جاتا۔وہ مزید کہتی ہیں کہ اگر گاندھی موجود نہ رہتے تو اُن کے بعد نہرو، راج گوپال اچاریہ، پٹیل اور متعدد دیگر رہنما موجود تھے جو ہندوؤں کی قیادت سنبھال سکتے تھے۔ تاہم اگر جناح نہ رہتے تو آل انڈیا مسلم لیگ میں کوئی بھی قابل ذکر رہنما نہیں تھا جو مسلمانوں کی باگ دوڑ سنبھالنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ جناح اس بات کے ضامن تھے کہ ہندوستان میں انارکی نہ پھیلے اور ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کا مقصد پر امن طریقے سے حل ہو۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپؒ کیسا پاکستان چاہتے تھے،آپؒ کی سیا سی بصیرت کیا تھی؟ کیا 1947 کے بعد کا پاکستان یا آج کا پاکستان واقعی ’’جناح کا پاکستان‘‘ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج ہر پاکستانی کے ذہنوں میں ہے۔ اور کسی بھی باشعور پاکستانی سے اس سوال کا جواب پوچھیں تو جواب نہ میں ملے گا اور میرے نزدیک بھی آج کا پاکستان جناح کا پاکستان نہیں۔قائداعظم محمد علی جناح کیسا پاکستان چاہتے تھے اس موضوع پر ہم بہت سے لیکچر سنتے رہتے ہیں مگر جناح کا پاکستان آج بھی ایک خواب کی طرح ہیں۔ جناح کے پاکستان کا قیام اقلیتوں کے تحفظ کے بغیر ممکن نہیں، بالکل اسی طرح معاشرے سے تعصب، عدم برداشت اور انتہاپسندی کا خاتمہ کئے بغیر بھی یہ خواب ادھورا رہے گا۔گزشتہ74 سالوں میں اس ملک میں جو نسلیں پیدا اور جوان ہوئی ہیں، ان کی سوچ، سمجھ اور خیالات میں بتدریج کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن میں یقیناً بڑی حد تک پاکستان کے حالات، مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات، سیاسی، معاشرتی و معاشی مسائل کا بڑی حد تک عمل دخل ہے۔بہرکیف قوموں کو ہمیشہ عظیم ہیرو درکار ہوتے ہیں اور قائداعظم بلاشبہ پاکستان کے ایک ایسے ہیرو ہیں جن پر ساری قوم فخر کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان کہا جا سکتا ہے؟ کیا قائداعظم کی شخصیت اور کردار موجودہ پاکستان کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں؟ قطعاًََ نہیں ! یہ یقیناًہم سب کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس لیے ہمیں اس بات کا عزم کرنا ہے، کہ اس ملک کو ہم نے قائد اعظمؒ کے اصولوں کے عین مطابق چلانا ہے اور کوشش کرتے رہنا ہے کہ اس ملک سے کرپشن کو مکمل ختم کرنا ہے۔ تاکہ ہم معاشی، قومی اور جذباتی طور پر مضبوط ہوسکیںاور حقیقی معنوں میں ’’نیا پاکستان‘‘ بنا سکیں۔