سرما میں پھولوں کو جھلسنے سے بچائیں!۔

آج دماغ میں بس عمیر کا چہرہ ہے۔ آپ نے توتلی آواز میں بولتے ہوئے بچے سنے ہوں گے۔ مگر عمیر___اس کی توتلی آہیں کانوں میں خراشیں ڈال رہی ہیں۔

بیس دن پہلے وہ ہسپتال میں آیا تھا۔ جسم کا پچاس فیصد حصہ جل چکا تھا۔ تین سالہ ننھا جسم اور آدھا جلا ہوا، وہ بھی شدید گہرا۔ ایسے بچوں کی حالت نہایت تشویشناک اور بچنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ معصوم پیارا چہرہ، یقیناً اپنی نوجوان ماں کا پہلا اور اکلوتا بچہ تھا۔ برن یونٹ میں ہر سُو جھلسے ہوئے پھولوں کے درمیان اس کا بیڈ بہت صاف ستھرا ہوتا تھا جہاں اس کی ماں اور خالہ ہمہ وقت اس کی سانس سانس کے آنے پہ شکر کرتی تھیں اور آہ بھی کرنے پہ ان کی سانس اٹکتی تھی۔ عمیر کی طبیعت شدید بگڑی رہی مگر گھر والوں کا حوصلہ نہیں بگڑا۔ کتنے ہی صبر کے ساتھ اس کی ماں دودھ میں انڈے پھینٹ کر، یخنیاں اور سوپ بنا کر، جوس اور قیمہ اسے گود میں لیے کھلاتی رہتی۔ میں نے پٹیاں کھلوا کے اس کا زخم دیکھا تو حیران رہ گئی۔ اس قدر گہرا اور بڑا زخم مگر اتنا صاف___مجھے امید تھی کہ معجزہ ہو گا۔ اتنے جلے ہوئے بچے کم ہی بچتے ہیں مگر عمیر صحت مند ہو کے توتلی آواز میں بولتا ہوا چھٹی لے کے جائے گا۔ مگر آج__!

آج اس کی طبیعت پھر سے بگڑ چکی ہے۔ انفیکشن شدید حد سے بھی اوپر پھلانگ چکا ہے۔ اس کی سانس یوں چل رہی ہے کہ تکلیف سے میرا اپنا چشمہ کئی بار دھندلا چکا ہے۔ نبضیں پھر بگڑ رہی ہیں۔ دم یوں ہے گویا دمِ رخصت ہو۔ فائل میرے سامنے ہے۔ میری دواؤں کی فہرست ختم ہو چکی ہے، ہر ممکن دوا کا ذائقہ اس کی رگیں چکھ چکیں۔ ہر ممکن تدبیر زیرِ عمل آ چکی۔ اب آہوں میں ہمکتا ہوا تیزرفتار سانس ہے اور___مجھے لگتا تھا معجزہ ہو گا، مجھے اب بھی امید ہے۔ مگر کوئی مجھ سے پوچھے بیس دن کسی کے انگ انگ کی تکلیف پہ اپنے ہاتھوں سے مرہم رکھتے، سر سے لے کے پاؤں تک ہر عضو کی تکلیف اور شکایت کا مداوا کرتے اک روز الوداعی سانس لیتے دیکھنا کیسا کرب ناک ہوتا ہے۔ کتنی ہی بار کوشش کی کہ اس کی ماں کو فقط ایک جملہ کہہ سکوں، “آپ کے بچے کی حالت بہت خراب ہے” مگر کتنی ہی کوششوں کے بعد بھی اس کی ہمت اکٹھی نہیں ہو سکی۔ نجانے اس کی ماں یہ سن کیسے پائے گی اور نجانے وہ اپنے لختِ جگر کو___خدانخواستہ___رخصت ہوتا کیسے دیکھ سکے گی___

مجھے ننھے بچوں کے والدین سے کچھ عرض کرنا ہے۔

والدینِ محترم! یہاں ہسپتال میں بچوں کے وارڈ میں سرما کے آغاز سے جلے ہوئے بچوں کا اژدھام لگا ہوا ہے۔ پورا دن اور پوری رات جھلسے ہوئے بچے بےتحاشا آتے چلے جاتے ہیں۔ کچھ دن قبل آدھی رات کو ایک ہی گھر سے اکیس بچے جلے ہوئے آ پہنچے۔ وارڈ میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، ہسپتال انتظامیہ نے کسی دوسرے وارڈ میں منتقل کروا دیا۔ ان میں سے پانچ چھ اب تک انتقال کر چکے ہیں۔ کل ہی دو ننھے بھائی جلے ہوئے آئے جن میں ایک کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ میں نے صبح بنایا۔

کتنے ہی بچوں کی آنکھیں جلنے سے ضائع ہونے کے خدشوں میں ڈول رہی ہیں۔ چہرے یوں جھلس کے مسخ ہوئے ہوتے ہیں کہ پہچانے نہیں جاتے۔ ہاتھ پاؤں یوں سوجھے ہوئے ہوتے ہیں کہ نشتر سے جلد کاٹ کر گہری کھولی نہ جائے تو ہاتھ ضائع ہونے کا پورا احتمال ہے۔ زخم یوں سیاہ ہو کے سخت ہو چکے ہوتے ہیں کہ انفیکشن بےمہار ہو چکا ہوتا ہے۔

والدینِ محترم!

اس سال فلو اور کھانسی کی بیماریوں میں قدرے کمی آئی ہے۔ معلوم ہے کیوں؟ کہ لوگ کورونا کی وجہ سے ماسک اور ہاتھ دھونے کے اصولوں پہ بہت حد تک قائم ہیں۔ جس کی وجہ سے کورونا کے ساتھ فلو جیسی دوسری بیماریوں سے بچاؤ بھی ہو رہا ہے۔ جلنا کورونا سے کم خطرناک نہیں کہ بیس فیصد سے زائد جلے ہوئے بچے کا زندہ بچنا یا پیچیدگیوں سے بچنا معجزہ شمار ہوتا ہے۔ جس طور آپ کورونا سے بچنے کی تدابیر لے رہے ہیں اسی شدت سے بچوں کو جھلسنے سے بچانے کی تدابیر کیجیے۔ گرم پانی اور دودھ کے دیگچے فرش پہ رکھنے سے گریز کیجیے۔ گھر میں گیس کے ہیٹر رکھ لیجیے یا بچے، دونوں رکھ کے قتل کا سامان نہ کیجیے۔ چولہے ہرگز فرش پہ نہ رکھیے۔ انگیٹھیاں اور کوئلے جلانے کے لیے بچوں کے بڑا ہونے کا انتظار کر لیجیے۔ بچوں کے سامنے چائے پینے سے گریز کیجیے، آپ کی استراحت کے لیے آپ کے بچے ابدی آرام میں چلے جاتے ہیں۔

والدینِ محترم! اپنے جنت کے پھولوں کو آگ میں جھلسنے سے بچا لیجیے!

اور ہاں، ہمارے عمیر کی صحت یابی کے لیے دعا کیجیے گا۔

(مریض کا نام فرضی ہے۔)