ایک دور تھا جب ایک قوم کسی دوسری قوم کو تباہ کرنے کے لئے ہر خونی طریقہ آزما تی تھی۔ سازشوں سے کام لیا جاتا اور میدانوں میں گھمسان کا رن پڑتا۔ مہینوں اور برسوں پاپڑ بیلنے کے بعد کسی قوم کو مرعوب کیا جاتا تھا۔ جہاں بہت زیادہ انسانی وسائل سے کام لیا جاتا وہیں اندھادھند خونریزی ہوتی۔ اس خونریزی سے کم از کم اتنا تو لازمی ہوتا تھا کہ فاتح قوم تاریخ میں جابر نسل بن جاتی تھی۔ مگر پھر دور آیا ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کا ۔یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے مخالف زیر بھی ہوتا ہے اور اپنی جیب بھی بھرتی ہے۔ یعنی کہ ایک تیر سے دو شکار۔ اس بے حد آسان اور نام نہاد امن کے ذریعے سے جدید دور میں نسل کشی کی جارہی ہے جس کو عام زبان میں ہائبرڈ وار ففتھ جنریشن وار اور میڈیا وار کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں پچھلی صدی کے آغاز میں ہونے والی دو عظیم جنگوں کے بعد انسانیت امن کا راستہ ڈھونڈنے لگی۔ لیکن انسان اپنی جبلت کا غلام ہے۔ اور اس کے خون میں پائی جانے والی وحشت ،جارحیت اور تعصب بہت ہی مشکل سے ختم ہوتا ہے۔ اس لئے جدید دنیا میں مخالفوں کو زیر کرنے کا طریقہ بھی بدل گیا ہے۔ وہ کام جو پہلے میدان جنگ میں خون بہا کر کیا جاتا تھا اب فیس بک کی ایک پوسٹ سے ہو جاتا ہے۔ جھوٹ اس قدر سچ لگتا ہے کہ انسان پگلا جائے۔ میڈیا وار کے اس دور میں سب سے بڑا شکار نوجوان ہو رہا ہے۔ نوجوان جب زندگی کے ہر لمحے میں مغرب کی ترقی دیکھتا ہے تو اس کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اور اس طرح سے انسان بہ آسانی جدید ہتھکنڈوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
آج انٹرنیٹ پر دنیا کے ہر موضوع پر مواد دستیاب ہے۔ وہیں دوسری طرف فلمیں، گانے ، پورن ہپ ہاپ میوزک اور سستا جارحیت پسند میوزک بھی عام ہے۔ اور ان سب کا شکار ایک نوجوان طبقہ ہو رہا ہے جو کہ اپنی تہذیب کو قدامت پسند جاہلانہ اور دیہاتی طرز کہہ کر مسترد کر دیتا ہے۔ اور مغربی روشن زندگی کی طرف مائل ہوتا ہے اسی طرح سے ہماری پوری نسل جدید مغربی دنیا سے انسپائر ہو رہی ہے اور اپنی زندگی میں مغربی طرز کو اپنا رہی ہے۔ جس سے صاف صاف نظر آ رہا ہے کہ ہماری نسل کشی ہوچکی ہے اور تلوار کے پرتشدد ذریعہ کے بجائے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں فتح کر لیا گیا ہے۔ اب ہمارا کردار ایک مفتوحہ قوم کا سا ہے اور ہم بلاواسطہ غلام بنے ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا ایپس نے یہ کام نہایت تیز اور آسان کر دیا ہے آئے روز نئی نئی ایپس متعارف ہورہی ہیں جس سے نہ صرف ایک ملک کو کثیر زرمبادلہ ملتا ہے بلکہ اپنی فکری و تہذیبی چھاپ بھی دوسرے تک پہنچ جاتی ہے۔ ان سب حالات کو دیکھا جائے تو ملک عظیم تر بہت پیچھے ہے بلکہ صدیوں پیچھے رہ گیا۔ ہمارے ہاں تو ایک بڑی سے بڑی شخصیت کا بیانیہ بھی باہر کی دنیا میں متنازع بن جاتا ہے تو ہم دوسری اقوام میں اپنا تاثرتو کسی صورت نہیں چھوڑ سکتے۔ اب جیسے ہی چین عالمی سپر پاور بننے جارہا ہے تو وہیں ملک میں ہر طرف چینی دفاتر کھل گئے ہیں۔ چینی دفاتر سے مراد ان کے تہذیبی اور لسانی اڈے ہے۔ جہاں پر وہ اپنی زبان سکھاتے ہیں اپنے طرز ترقی کا راز بتا کر ورغلاتے ہیں اور دوسروں کو اپنے زیر چھاپ لاتے ہیں۔
وقت کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اس خاموش نسل کشی کو سمجھیں اور میڈیا وار کا شکار نہ ہوں اس کے متعلق ہماری فورسز کے اقدامات حوصلہ افزا ہیں جو کہ ہر سطح پر جا کر اس جنگ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اور قوم کو مزید تباہی سے بچائے ہوئے ہیں۔ مشترکہ ثقافت کے نام پر بالی ووڈ کی ایسی چھاپ پڑی ہے کہ غریب کے لیے دو بیٹیوں کا بیاہ کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔ بلاوجہ کے لوازمات اور غیر ضروری رسومات سےغریب کی بیٹی اپنے گھر تک ہی محدود ہو گئی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اب ہر پلیٹ فارم پر اس تہذیبی اور خاموش جنگ کا مقابلہ کریں تاکہ اپنا مستقبل خود طے کر سکیں ورنہ ہم بھی نہایت آسانی سے نیو ورلڈ آرڈر کا شکار ہو جائیں گے۔ بلکہ کسی حد تک ہو بھی گئے ہیں۔ اس لیےوقت کی ضرورت ہے کہ ملٹی میڈیا کا استعمال حکومتی سرپرستی میں ہو جہاں آزادی اظہار رائے کے ساتھ ساتھ حب الوطنی اور موجودہ دور میں اس سے بچاؤ کا جدید طریقہ بھی نافذ ہو۔ جو بھی ہو اس زمرے میں عمران خان کا پی ٹی وی پر ترک ڈراموں کا نشر کرنا ایک نہایت ہی اچھا قدم ہے۔ تنقید کے باوجود ارطغرل جیسے ڈرامے میں یہ خوبی تو ہے کہ یہ عریانی اور فحاشی سے تو پاک ہے۔ اسی طرح سے قوم کا جدید طرز تعمیر ترقی پا سکتا ہے۔ قوموں کی فکری تعمیر نو میں دوسری تہذیب کے غلبے سے بچنا بہت اہم ہوتا ہے۔ مثال لے لیجئے کہ 27 فروری کو ہم نے بھارت کو ناکوں چنے چبوائے لیکن بھارتی میڈیا نے اس قدر صفائی سے جھوٹ بولا کہ دید نہ شنید۔ اسی جھوٹ کی بھرمار سے بھارتی بیانیہ تقویت پکڑنے لگا اور امریکی دلیل کے باوجود بھارتی کہتے رہے کہ ہم نے پاکستان کا ایک ایف 16مار گرایا ہے۔ یہ بھی میڈیا وار کی تازہ ترین اور آنکھوں دیکھی مثال ہے جس سے کوئی بھی ذی فہم نظریں نہیں چرا سکتا۔
اس دور بگاڑ میں ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر چلنے کی ضرورت ہے اور اس میں حکومتی سرپرستی بھی بہت لازمی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے ہاں میں دلہا دلہن قبول قبول ہے کہنے کے بعد ماتھے پر سندور بھی لگایا کریں گے۔ اللہ کرے کہ ہم اس خطرناک مستقبل سے بچ جائیں اور یہ جنگ بھی کامیابی سے لڑ کر اپنی تہذیبی ورثہ کو قائم رکھیں۔ آمین