سالہا سال متحدہ ہندوستان میں رہنے کے باوجود مسلم قوم ہندو قوم میں زم نہ ہوئی بلکہ سیاسی،معاشی ،معاشرتی،مذہبی غرض زندگی کے ہر پہلو سے اپنا جداگانہ تشخص برقرار رکھتے ہوئے دوسرے تمام باسیوں سے ممیز رہی۔۔۔اس شناخت کی بنیادی وجہ ان کا مذہب اسلام ہے جو مکمل ضابطہ حیات طے کرتا ہے ،جو صرف مسجد مدرسے تک ہی محدود نہیں بلکہ سیاست کے ایوانوں سے لے کر بازار کے چوراہوں اور گھر کے دالانوں تک محیط ہے۔اسی منفرد نظام زندگی نے انہیں کسی دوسری قوم میں گم ہونے سے بچایا ۔۔۔چنانچہ جب ہندووں نے یہ کوشش کی کہ برطانوی سامراج اپنا اختیار حکومت ان کے حوالے کر کے جائے کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں تو مسلمانوں کے اندر یہ احساس بیدار ہوا کہ ایسے تو وہ ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی میں چلے جائیں گے ۔ایسے میں علامہ اقبال جیسے دور اندیش مفکر نے مسلم اکثریتی علاقہ جات کو متحد کر کے الگ ملک بنانے کا تصور پیش کیا جسکی تائید دیگر مسلم رہنماوں نے بھی کی اور جلد ہی یہ تصور ایک تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔۔لیکن اس تحریک کو صحیح سمت گامزن کرنے اور منزل تک پہنچانے کا سہرا محمد علی جناح کے سر ہے ۔جناح ایک ہمہ جہتی شخصیت کے مالک تھے ،اعلی پائے کے قانون دان اور سیاسی بصیرت رکھنے والے جناح نے اپنے پرزور دلائل کے ساتھ دشمن کی زبان گنگ کر دی اور انہیں مسلمانوں کے الگ ملک کا مطالبہ ماننے پر مجبور کر دیا۔ایسا ملک جہاں مسلم قوم اپنے اس تشخص کے ساتھ اسی ضابطے کے تحت زندگی گزار سکے جو ان کے عقیدے کے ساتھ وابستہ ہے۔چنانچہ جب کبھی ان سے نئے ملک کے نظام کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ برملا کہتے کہ اس کا نظام اسلام ہو گا اور یہ کہ مسلم اور ہندو ہر لحاظ سے جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔
سر آغا خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ’’ ایک مرتبہ مشہور صحافی بیورلے نیکولسن نے قائد ِاعظمؒ سے سوال کیا کہ آپ کس اصول کے تحت پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں؟ تو جناح نے پیارے انداز میں جواب دیا کہ صرف چار لفظوں کی بنیاد Muslims are a Nation پر۔ اسی طرح ایک بار ایک ہندو طالبِ علم نے قائداعظمؒ سے سوال کیا کہ آپ پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں، ہندو اور مسلمان میں کیا فرق ہے؟ قائداعظم ؒ کچھ دیر خاموش رہے، ایک طالبِ علم سے پانی کا گلاس منگوایا۔ ایک گھونٹ اس میں سے پی کر باقی ماندہ ہندو طالبِ علم سے پینے کو کہا، ہندو طالبِ علم نے پینے سے صاف انکار کر دیا۔ قائداعظمؒ نے پھر ایک مسلمان طالب علم کو بلا کر پانی پینے کا کہا تو اس نے بلا تامل آپؒ کا چھوڑا ہوا پانی پی لیا۔ اس پر آپ نے کہا کہ ’’دونوں قوموں میں بس یہی فرق ہے۔۔ محمد علی جناحؒ نے 5ستمبر 1938کو ہندوستان ٹائمزکی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ”پاکستان کوئی نئی چیز نہیں، یہ تو صدیوں سے موجود ہے، ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے میں جہاں آج بھی 70فیصد سے زائد آبادی مسلمانوں کی ہے، یہی مسلمانوں کا ملک ہے۔ اِن علاقوں میں ایک ایسی آزاد اور خود مختار اسلامی حکومت ہو، جس میں مسلمان اپنے مذہب، تہذیب و تمدن اور قرآن و سنت کے قوانین کے مطابق زندگی گزار سکیں“۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اسلام کی عظمت اور قرآن کی حقانیت کی بات کی، حضرت محمدﷺ جو نظام لیکر آئے تھے اُس کو اپنا آئیڈیل قرار دیا اور ماڈل اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے عزم بالجزم کا اظہار کیا۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے ایک بار نہیں درجنوں بار فرمایا تھا کہ ”ہمیں کسی نئے دستور کی کیا ضرورت ہے، ہمارا دستور تو 14سو سال قبل بن چکا ہے، ہمارا دستور وہی ہے جو اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے قرآن و سنت کی صورت میں ہمیں عطا کیا ہے“۔ ہم دنیا کیلئے پاکستان کو ایک مینارۂ نور، ماڈل فلاحی ریاست اور اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے۔ قائداعظم نہ صرف اسلامی نظریہ حیات پر مکمل یقین رکھتے تھے بلکہ پاکستان کو ایک ماڈل اسلامی ریاست بنا کر دنیا کو اسلامی نظام زندگی سے روشناس کروانے کا عظیم مقصد بھی اُن کے پیش نظر تھا۔ جون 1945میں فرینڈ مسلم اسٹوڈنٹس کے نام اپنے پیغام میں قائداعظم محمد علی جناح نے فریایا ”ہم نے اِس قابل بننا ہے کہ اپنی آزادی کی حفاظت کر سکیں اور اسلامی تصورات اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں“۔ پاکستان کے قیام کے بعد 1948میں قائداعظم نے پاکستان کو دنیا کی ایک عظیم اسلامی مملکت بنانے کا دو ٹوک اور واضح اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ”اگر خدا نے مجھے توفیق بخشی تو میں دنیا کو دکھا دوں گا کہ اسلامی اصولوں پر عمل پیراہو کر پاکستان پوری دنیا کے لئے مشعلِ راہ بنے گا، ہم تحریک پاکستان کے جذبے کو ماند نہیں پڑنے دیں گے، پاکستان کو اسلامی نظریہ حیات کے فروغ و اشاعت کا مرکز بنائیں گے“۔
مارچ 1948میں چٹاگانگ میں عوامی استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ”جب آپ کہتے ہیں کہ پاکستان معاشرتی انصاف اوراسلامی سوشلزم کی یقینی بنیادوں پر مبنی ہونا چاہئے جو انسان کی مساوات اور بھائی چارے پر زور دیتا ہے توآپ میرے اور لاکھوں مسلمانوں کے جذبات کی آواز اٹھا رہے ہیں“۔مختلف تقاریر اوراسی طرح کے بے شمار بیانات بھی موجود ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کو اسلامی صولوں پر چلنے والی اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے۔
جناح کا وژن بالکل واضح تھا مگر لبرل طبقہ مستقل اس کوشش میں ہے کہ جناح کو ایک لبرل شخص کے طور پر متعارف کروایا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ جناح ایک لبرل پاکستان کے خواہشمند تھے۔اس کے لئے سب سے پہلے تو وہ دو قومی نظریے کی غلط تشریح کرتے ہیں کہ اس تفریق کی بنیاد مذہب نہیں بلکہ آبادی کا تناسب تھا کہ جہاں مسلم اکثریت میں ہیں وہاں ان کو حکومت کا حق دیا جائے اور جہاں ہندو اکثریت میں ہیں وہاں وہ حکمران ہوں، ایسے کج فہم لوگوں کے لئے عرض ہے کہ مسلمان اپنے مذہبی تشخص ہی کی وجہ سے دوسری اقوام سے ممیز رہے جیساکہ پہلے بیان ہو چکا ہے اور اسی الگ نظام زندگی کے نفاذ کے لئے ان نے الگ ملک اور الگ حکومت کا مطالبہ کیا تھا جس نے صدیوں کے ساتھ کے باوجود انہیں ہندووں سے الگ رکھا۔۔نہ کہ ایک خطہ زمین کے حصول کے لئے کیونکہ مسلم حکومتیں تو پہلے بھی متحدہ ہندوستان میں قائم تھیں لیکن مرکزی حکومت اگر ہندو بنئے کے ہاتھ میں چلی جاتی تو مسلمان اسلامی نظام کے تحت زندگی نہیں گزار سکتے تھے۔عقیدے کا تعلق اگر صرف فرد کی ذات سے ہوتا تو پھر ہندو مسلم فسادات کبھی نہ ہوتے مگر یہ دو الگ نظاموں کا تصادم ہے اور یہی بنیاد بنا دو قومی نظریےکا۔
دوسراوہ11 اگست 1947 پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں جناح کی تقریر کا سہارا لیتے ہیں جس میں ان نے کہا تھا کہ:
’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔۔۔”
اس تقریر کی غلط تاویلات کے ذریعے وہ اپنے موقف کو ثابت کرنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ ایک ممکنہ سربراہ مملکت کی تقریر تھی جس کے ذمے اپنے ملک کے تمام شہری یکساں طور پرہوتے ہیں اور اقلیتوں کے تحفظ اور ان سے مفاہمت کے بغیر ریاست کا نظام نہیں چلایا جا سکتا ۔ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست مدینہ میں بھی سب سے پہلے یہودی آبادی سے معاہدات کر کے ان کا اعتماد حاصل کیا گیا تھا کیونکہ اسلام کسی پر جبر کی اجازت نہیں دیتا اور اپنی حکومت میں غیرمسلموں کے بھی حقوق متعین کرکے ان کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے تاکہ امن وامان کو یقینی بنایا جا سکے۔اس تناظر میں ایک سربراہ مملکت کے خطاب میں یہ بات زیادہ قرین از قیاس ہے کہ وہ ریاست کے کثیر مفادات کے لئےغیر مسلموں کے اعتماد کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔۔پھر متحدہ ہندوستان میں مسلمان خود اس امتیازی سلوک اوراس کے نتائج کو دیکھ چکے تھے ،انہیں معلوم تھا کہ ریاست کی بقاء تبھی ممکن ہے جب مذہب سے بالا تر ہو کرتمام باشندوں کو مساوی حقوق دئے جائیں ۔۔۔لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس تقریر کو آڑ بنا کر اس سارے نظریے پر پانی پھیر دیا جائے جس کے تحت لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دیں اور یہ دعوی کیا جائے کہ جناح ایک لبرل پاکستان کے خواہشمند تھے۔تحریک پاکستان،اسلامی مملکت کی تحریک تھی،جہاں اسلامی نظام کو نافذ کیا جانا تھا اور یہ کسی ایک فرد کی نہیں بلکہ لاکھوں فرزندان اسلام کی تمنا تھی جسے قائد اعظم نے منطقی انجام تک پہنچایا،جسکی بنیاد میں یہ نعرہ پیوستہ تھا۔۔
پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ۔۔۔