یہ بات ہر زبان زد عام ہے کہ پاکستان کے دو لخت ہونے میں سراسر بھارت قصوروار ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس میں بھارت کا بہت بڑا ہاتھ ہے لیکن سارا ملبہ دشمن پرگرا کر خود بری الذمہ ہو جانا قطعی طور پر صحیح نہیں ہے۔۔یہی وجہ ہے کہ آج اس سانحے کو 50 برس گزرنے کے باوجود اصل محرکات پس پردہ ہیں یا یوں کہیں کہ جان بوجھ کہ اصل وجوہ کی پردہ داری کی گئی کیونکہ اس گناہ کی لپیٹ میں ملک کے نامور سیاسی اور دفاعی عناصر آتے ہیں۔۔۔تاریخ کے اس عظیم سانحے کے ذمہ دار عوامل و عناصر کو یوں تاریک پردوں میں چھپا کر سب سے بڑی خیانت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔
جوقومیں سانحات سے سبق حاصل کرتی ہیں وہی غلطی کی دوہرائی سے بچتی ہیں لیکن جہاں حقائق ہی مفروضات کے انبار تلے دب جائیں وہاں سہ بار اس غلطی کا امکان بڑھ جاتاہے۔۔
اس ملک کو حاصل کرنے کا خواب اہل بنگال نے بھی دیکھا تھا ،تحریک پاکستان کی روح رواں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے والے اے کے فضل الحق بنگالی ہی تھے اور یہ بات یاد رہے کہ یہ وہی صاحب ہیں جن نے قرارداد پاکستان پیش کی جو پاکستان کا پیش خیمہ تھی۔ پھر دیگر رہنماء جن نے اس تحریک میں ہراول دستے کا کا م کیا ان میں کئ ایک نام ایسے ہیں جن کا تعلق بنگال سے تھا۔قیام پاکستان کے موقع پر خون ان کا بھی بہا تھا،عزتیں وہاں بھی پامال ہوئیں،گھر ان کے بھی اجڑے اور پھر بھی یہ ملک بن جانے کے بعد سجدہ شکر ان نے بھی کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر تحریک پاکستان کے علم بردار اور اس کے لئے ان گنت قربانیاں دینے والے محض 24 سال کے اندر غدار کیسے بن گئے اور اس پار بھی پاکستان کا نام لینے والے قابل نفرت کیوں ٹھہرے کہ آج اتنے سال بھی انہیں پاکستان سے محبت کے جرم میں سزائے موت سنائی جا رہی ہے؟؟
اس سوال کے جواب کے لئے تاریخ کا رخ کریں تو اس کا واضح جواب تو نہیں ملتا البتہ سوالوں کا تانتا بندھتا چلا جاتا ہے۔۔
آخر ان معماران پاکستان کو حصول پاکستان کے بعد دوسرے درجے کا شہری کیوں سمجھا گیا؟
محض جغرافیائی حدبندیوں اور لسانی تفرقات کی وجہ سے ان سے اچھوتوں والا سلوک کیوں روا رکھا گیا؟
کیوں انہیں متحدہ پاکستان میں مساوی حیثیت نہ دی گئی؟معاشی ،دفاعی اور سیاسی لحاظ سے ملک کی اکثریت کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟
تاریخ کے مطالعے سے جو حقائق سامنے آتے ہیں انہیں پڑھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ کیسے یہ نعمت عظیم ذاتی اغراض و مقاصد اور ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھا دی گئی۔۔
یوں تو یہ سانحہ 16دسمبر 1971 کو پیش آیا لیکن اس کے لئے اسباب بہت پہلے سے فراہم کئے جا چکے تھے۔
1948 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل نو کے بعد نئی کونسل کے پہلے اجلاس میں ہی اختلاف کی صورت میں مشرقی پاکستان کی عوامی مسلم لیگ نے جنم لیا جو جلد ہی وہاں کے لوگوں کی ترجمان بن گئی۔مجیب الرحمان اسی نئی سیاسی جماعت کے رکن تھے۔چونکہ حکومت مسلم لیگ کی تھی چنانچہ کچھ ہی وقت میں اس جماعت نے باقاعدہ اپوزیشن کی صورت اختیار کرلی اور ہندوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے صرف عوامی لیگ بن گئی،اقتدار کے لئے عوامی مسلم لیگ اور مغربی پاکستان کی مسلم لیگ کے درمیان کھینچا تانی اسی وقت سے شروع ہو چکی تھی۔مغربی بنگال میں فسادات کی وجہ سے لاکھوں لوگ ہجرت کر کے مشرقی پاکستان آگئے تھے جس کہ وجہ سے بے چینی پھیلی ہوئی تھی لہذاانتظامی بد نظمی پر پہلے سے ہی احتجاج کیا جا رہا تھا۔اسی اثناء میں زبان کا مسئلہ اٹھایا گیا کہ بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے جسے حل کرنے کے لئے قائداعظم بنفس نفیس تشریف لے گئے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ مشرقی پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہندو آباد تھے جو مستقل اندرونی سازشوں میں مشغول رہتے تھے جنہیں غیر منظم سیاست نے خوب پروان چڑھنے کا موقع دیا۔
1951 میں پنجاب میں الیکشن ہو چکے تھے لیکن مشرقی پاکستان میں الیکشن ملتوی کر دئے گئے،جس نے مزید بے چینی پیدا کر دی۔
بعد ازاں 1952 میں دستور ساز اسمبلی نے دوسرا آئینی مسودہ تیار کیا جس میں دونوں بازووں کے درمیان parity یعنی مساوات کا اصول تجویز کیا گیا جس کے تحت دونوں خطوں کو مساوی حیثیت دی جانی تھی حالانکہ آبادی کے لحاظ سے مشرقی پاکستان 56 فیصد کا تناسب رکھتا تھا۔نا انصافی اور دونوں صوبوں کے درمیان اختلافات کا آغاز یہیں سے ہو چکا تھا لیکن پھر بھی مشرقی پاکستان اس کو قبول کرنے پر تیار تھا۔اس دوران مشرقی پاکستان کی معاشی صورت حال بہت دگرگوں رہی، غذائی اجناس کی قلت اور بنیادی ضروریات زندگی کا ناپید ہونا اور پھر ماہرین کی طرف سے دونوں بازووں کے درمیان روا رکھے گئے فرق کو اجاگر کرنا اور یہ بآور کرانا کہ مشرقی پاکستان کی برآمدات کے زرمبادلہ کو مغربی پاکستان پر خرچ کیا جا رہا ہے۔جبکہ بنگالی بھوکوں مر رہے ہیں۔اس بات میں بہت حد تک صداقت بھی ہے کہ جب وہاں کی پٹ سن سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ ملکی معیشت کو کندھا دے رہا تھا تب بنگال فاقہ زدہ تھا۔
بہر کیف سیاسی انتشار بتدریج عروج کی طرف جا رہا تھا،یکے بعد دیگرے کئی واقعات کے بعد پاکستان میں گورنر جنرل غلام محمد نے وزیراعظم کو برطرف کردیا اور بعدازاں مشرقی پاکستان میں بھی گورنر راج قائم کر دیا گیا۔ 1954 میں عام انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس نے طویل کشمکش کے بعد مغربی پاکستان کی ریپبلکن پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کی جس میں وزارت عظمی حسین شہید سہروردی کے حصے میں آئی۔اس حکومت نے 1956 میں آئین پیش کیا جس میں دونوں صوبوں کو parity کے اصول پر قومی اسمبلی میں مساوی نمائندگی دی گئ۔سیاسی انتشار سنبھل نہ پایا ،1958 میں ڈپٹی اسپیکر کو زخمی کر کے ہلاک کر دیا گیا جس کے بعد ایوب خان نے مارشل لاء لگا دیا۔یہ وقتی مارشل لاء طوالت اختیار کر گیا دراصل ایوب خان نے آئینی کمیشن ترتیب دیا جس میں امریکی طرز صدارت کی تجویز دی گئی جسے ایوب خان نے قبول کر لیا اور صدارت کے عہدے پر براجمان ہو گئے۔ایبڈو کے تحت 6 سال کے لئے تمام جمہوری پارٹیوں پر پابندی لگ گئی ،ان کے متعدد رہنماؤں کو نااہل قرار دیا گیا۔ اور کچھ کو قید کر کے مقدمے چلائے گئے ان میں مجیب الرحمان بھی شامل تھے۔
اگرچہ فوجی حکومت نے بہت اصلاحات بھی کیں خصوصا مشرقی پاکستان کی ترقی پر توجہ دی لیکن چونکہ فوج میں مشرقی پاکستان کی نمائندگی 25 فیصد سے بھی کم تھی لہذا ایک عام تاثر جو وہاں کی عوام میں ابھرا وہ یہ کہ مغربی پاکستان ان پر قابض ہے۔
نیز اس حکومت کے ایسے اقدامات نے جمہوریت کا گلا گھونٹ کر عوام میں سخت اضطراب پیدا کر دیا۔
طویل عرصے بعد 1969 میں صدر نے بیماری کے باعث عہدے سے استعفی دیدیا لیکن اس سے قبل جنرل محمد آغا خان یحیی کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دے دی جو کہ سراسر آئین کی خلاف ورزی تھی اور یہ بات ناقابل فہم ہے کہ یہ سنگین اقدام کیوں اٹھایا گیا۔ 25 مارچ 1969 کو فیلڈ مارشل یحیی خان نے مارشل لاء کا اعلان کردیا۔جس نے یکے بعد دیگرے ایسے اقدامات کئے جن سے ملکی سالمیت تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی۔مثلا 1956کا آئین جسے مشرقی پاکستان کی بھی حمایت حاصل تھی ختم کر کے قومی اسمبلی کو نیاآئین بنانے کا کام سونپا گیا ،پیرٹی کے اصول کو ختم کرکے ون مین ون ووٹ کے اصول پر نمائندگی دی گئ یہ اقدام بہت مہلک ثابت ہوئے ۔نیز جداگانہ انتخاب کی بجائے مخلوط انتخاب رائج کیا گیا جس کا فائدہ مجیب الرحمن اور بھٹو کو ہوا ۔
1970 کے اوائل میں عام انتخابات ہونے تھے جو کہ مشرقی پاکستان میں سائیکلون، سمندری طوفان کے باعث ملتوی کردئے گئے ۔دسمبر میں ہونے والے ان انتخابات میں جن میں قومی اسمبلی کی 313 میں سے 300 کا چناو ہوا،عوامی لیگ نے 160نشستیں حاصل کیں جبکہ مغرب میں 81 نشستیں بھٹو کی پیپلز پارٹی کو ملیں۔مجیب الرحمن نے یہ الیکشن اپنے 6 نکاتی ایجنڈے کی بنیاد پر لڑا اور بلند وبانگ دعوے کرنے کے باعث عوام میں بے پناہ مقبول ہوا یہی 6 نکات اصل میں بنگلہ دیش کی بنیاد ثابت ہوئے ۔
اب الیکشن کے نتائج کے لحاظ سے اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو حکومت سونپی جانی چاہیے تھی اور حزب اختلاف پیپلز پارٹی کو لیکن بھٹو کو مجیب الرحمن کے 6 نکات سے شدید اختلاف تھا جو کہ متعدد بار گفت و شنید کے نتیجے میں 5۔5 فیصد تک حل ہو چکا تھا۔
پہلے پہل مجیب ان نکات پر بحث کرنے کو تیار تھے لیکن بعد میں ان نے کسی قسم کی لچک دکھانے سے انکار کردیا۔ بہر کیف جو معمولی اختلاف رہ گیاتھا وہ بھی قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں دور ہونے کا قوی امکان تھا لیکن کچھ پس پردہ وجوہ کہ بناء پر اسے ملتوی کیا جاتا رہا،یوں سیاسی اختلاف میں شدت آتی گئی۔اس پر سیاسی معاندین کی نفرت آمیز تقاریر نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور بھٹو کی فروری1971میں مینار پاکستان کے سائے تلے تقریر جس میں “ادھر تم ادھر ہم” کا نعرہ لگایا گیا ،علیحدگی کا محرکہ ثابت ہوئی ۔مشرقی پاکستان میں سخت انتشار پیدا ہو چکا تھا ایسے میں وہاں کی گوریلا تنظیم مکتی باہنی اتحاد کو توڑنے کےلئے چھری کا کام کرنے لگی۔پاک فوج کا بھیس اختیار کر کے قتل عام کیا گیا اور فوج کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کیا گیا ۔۔انڈیا نے بھر پور انداز میں ان باغی گروہوں کی عسکری، مالی اور سفارتی مدد کی۔حکومتی رٹ قائم رکھنے اور امن کی قیام کے پیش نظر فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا تو مکتی باہنی کی سرگرمیاں بھی تیز ہو گئیں۔دریں اثنا بھارت نے تمام ضابطوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مشرقی اور مغربی پاکستان پر جنگ مسلط کر دی ۔یہ سب کچھ ایک طے شدہ پلان کے مطابق سر انجام دیا جا رہا تھا۔
پاک فوج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا 90 ہزار کے مقابلے میں بھارت کی دو لاکھ فوج اور مکتی باہنی کے لاکھ سے اوپر کارندے مسلسل حملہ کر رہے تھے۔
انڈیا نے ایک طرف عالمی طاقتوں سے جدید اسلحہ لے کر جنگ میں استعمال کیا اور دوسری طرف عالمی سطح پر مہاجرین کا مسئلہ کھڑا کیا جس پر عالمی دباو بھی پاکستان پر پڑ گیا۔
ملک عزیز چہار سو مشکلات میں گھر گیا۔لیکن پھر بھی فوج نے مقابلہ جاری رکھا۔ اندرونی اور بیرونی طاقتوں سے بر سر پیکار رہی ۔حالات کی نزاکت نتائج کا اعلان کر چکی تھی مگر پھر بھی امید باقی تھی۔اس وقت کے لیفٹننٹ جنرل نیازی نے یہ اعلان کیا کہ بھارت ہماری لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکہ میں داخل ہو گا۔مگر اگلے ہی روز غیر ملکی خبررساں ایجنسی کی اطلاع پر عوام سکتے میں آگئی کہ انہوں نے کس ذلت آمیز طریقے سے 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ ریس کورس کی ایک تقریب میں دشمن افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دئےجو کہ جنگ عظیم دوم کے بعد جنگی قیدیوں کی تعداد کے لحاظ سے ہتھیار ڈالنے کا سب سے بڑا موقع تھا اور مزید براں کمانڈر اینڈ چیف اور خود ساختہ صدر پاکستان نے اعتراف شکست کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم کی جانب سے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کو تسلیم کر لیا۔۔حالانکہ مغربی محاذ پر پاکستانی افواج کامیابی سے ہمکنار ہو رہی تھی اور بہت آگے بڑھ چکی تھی۔اور مشرقی پاکستان میں بھی 90 ہزار فوج آسانی سے مقابلہ کر سکتی تھی لیکن ارباب اختیار نے ذلت کے اس راستے کا انتخاب کیوں کیا۔۔۔یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے۔
بنگلہ دیش اپنی بنیاد، پاکستان سے آزاد ہوگیا اور یوں یہ ملک رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بلاد اسلامیہ کا سب سے بڑا ملک ہونے کے شرف سے محروم ہو گیا۔
پاکستان دو لخت ہو گیا اور دو قومی نظریہ سیاسی عداوتوں اور اقتدار کی چھینا جھپٹئ کی نظر ہو گیا۔مگر افسوس کہ قافلہ لٹ گیا اور احساس زیاں بھی نہ ہوا۔50 سال گزرنے کے باوجود ان اسباب کا نہ تو ادراک کیا گیا اور نہ ہی تدارک۔۔بلکہ آج بھی حکمرانوں کی وہی ریشہ دوانیاں زور و شور سے جاری ہیں،ذاتی اغراض اور کرسی کی ہوس میں ملکی مفاد یکسر ناپید ہو چکا ہے۔۔ایسے میں قوم کو تاریخ کے ان واقعات سے عبرت حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ دشمن آج بھی برسر پیکار ہے اور اندرونی خلفشار اس کے عزائم کےلئے مفید تر ثابت ہوگا۔