ماضی کے دریچوں سے

تاریخ اس کثیر الاولاد ماں کی طرح ہے جس کے اکثر بچے اس کی زندگی ہی میں مر جاتے ہیں!احمد جاوید صاحب کا یہ قول وطن عزیز پر بیتے گئے حالات و واقعات کے تناظر میں ایک صائب قول ہے ۔

اس میں سب سے پہلے تو میرے قائد کے آخری انتہائی تکلیف دہ لمحات ہیں ۔ جس میں کوئٹہ سے واپسی کے بعد ایئر پورٹ سے گورنر ہاؤس جاتے ہوئے راستے میں انکی ایمبولینس خراب ہوگئی اور ایک گھنٹے تک سڑک پر بے یارومددگار کھڑی رہی پھر اس کے چار گھنٹے کے بعد یہ افسوسناک اطلاع آئی کہ آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے ہیں۔

دوسرا واقعہ لیاقت علی خان کی شہادت کا ہے جنھیں لیاقت باغ میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا جس کا آج تک کچھ پتہ نہ چلا میرے وطن میں ہر واقعے پر کمیشن تو بنتا ہے مگر رپورٹ منظر عام پر نہیں آتی۔

ایسا ہی ایک اور سیاہ ترین دن 16 دسمبر یوم سقوط ڈھاکہ کا ہے۔ جب نظریاتی طور پر حاصل ہونے والے ملک میں اپنی نوعیت کا اندوہناک واقعہ پیش آیا کہ وہ قوم جس نے ایک ہی نعرہ اور مقصد کے لئے مل کر جدوجہد کی اور قربانیاں دیں صرف 24 سال کے عرصہ میں یہ کیا ہوا کہ ؟

ادھر ہم ادھر تم کہ نعرے بلند ہونے لگے

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

لسانیت اور عصبیت کی وہ آگ لگائی گئی جس کی تپش آج بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ مگر شاباش ہے ان مردان حق پر جنھوں نے ایسے وقت میں پاکستان زندہ باد کا جو نعرہ لگایا آج بھی اس سزا کی پاداش میں پھانسی کے پھندوں کو گلے لگا رہے ہیں ۔

 لیکن افسوس!! ان پاکستانی حکمرانوں نے اپنی نااہلیوں اور ناعاقبت اندیشیوں کو اپنی قوم اور آنے والی نسلوں سے چھپانے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا ، مگر یہ بات سب کو معلوم ہونی چاہیے کہ 27 رمضان المبارک کو آزاد ہونے والا ملک کوئی عام ملک نہیں اور نہ ہی اسکو مٹانا کوئی آسان کام ہے بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ اسکو مٹانے کی کوشش کرنے والوں اور ان کی نسلوں کا کیا حال ہوا ؟؟؟

آج سے چھ سال پہلے ٹھیک اسی سولہ دسمبر کو ایک اور ہولناک واقعہ آرمی پبلک اسکول میں پیش آیا اس غم نے کئ سال پہلے پیش آنے والے سانحے کی یاد تازہ کر دی۔

اسکو ل کے ننھے بچوں کے خون نے سقوط ڈھاکہ کو بھی زندہ کردیا ۔

ایک اور رستا ہوا زخم ہماری شہ رگ کشمیر کا ہے جس کے لئے بڑے بڑے فورم پر بڑی بڑی تقریریں تو کی جا رہی ہیں مگر کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا جارہا ۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کی طرح کشمیریوں کی نظر یں بھی ہماری طرف لگی ہوئی ہیں مگر بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے بقول حبیب جالب

اٹھا رہا ہے جو فتنے مری زمینوں میں

وہ سانپ ہم نے ہی پالا ہے آستینوں میں

خدارا اس ارض مقدس اور تحفہ خداوند کی قدر کریں

یہ ہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لیے

کھڑے رہو گےکہاں تک تم تماش بینوں میں