جب انسان دنیا میں آتاہے تو اُسی وقت سے اس کی تعلیم تربیت کا آغاز ہوتاہے گویا ماں کی گود اس کی پہلی درسگاہ قرا ر پاتی ہے پھر اس کو اپنے باپ کے آغوش سے شنا سائی ہوتی ہے اسی طرح یہ دائرہ بڑھتا ہے اس کے دادا دادی ،نانا نانی ، اور دیگر قریبی خاندان کے لوگ اس عمل میں شریک ہوتے ہیں ۔وہ اپنی ماں سے اس کی زبان سیکھتاہے لہجہ سیکھتاہے اور اس طرح یہ اس کی مادری زبان بن جاتی ہے جو اس کی موت تک اس کے ساتھ رہتی ہے چونکہ بچہ سادے کاغذ کا ایک ٹکڑا ہوتاہے اس پر اس کی ماں تعلیم و تربیت کے حوالے سے جو تحریر کرتی ہے وہ تحریر بعد میں اتنی پختہ ہوجاتی ہے کہ وہ پتھر کی لکیر سے زیادہ مستحکم ہوجاتی ہے بچہ اپنی ماں کی خوشبو کو پہچاننے لگتاہے اس کے لمس کو محسوس کرنے لگتاہے وہ اپنے باپ کے چہرے اور اس پر جذبات کی لکیروں کو جاننے لگتاہے ۔یہ پہلا دائرہ اتنا اہم ہوتاہے کہ بچے کی تعلیم و تربیت کا سب سے بڑ ا حصّہ یہاں مکمل ہوجاتا ہے یہاں سے ہی دین ،ذبان اور اخلاقی قدریں بچہ سیکھتاہے ۔ایک ایسی قوم تیار کرنا ہو جوکہ ایماندار ، دیانت دار اور بہادر ہوتو لازمی ہےکہ اس کے تیاری کے لیے پہلی اینٹ ،اچھی مائیں تیار کرنا ہے ۔ اس بات کی دلیل کے طور پر تو بہت سارے واقعات تاریخ کے صفحات کا حصّہ ہیں جن میں سے ایک واقعے سے بات واضح ہوجائے گی حضرت عمر بن عبدالعزیز جن کا دور خلافت تو زیادہ طویل نہ تھا مگر ا نہوں نے جو کارنامے انجام دیئے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ رعایا کی خبر گیری کےلیے اپنے معمول کے گشت پر تھے رات کا بیشتر حصّہ گزر چکا تھا کہ ایک گھر سے دوعورتوں کے باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھی ایک کہ رہی تھی بیٹی دودھ میں پانی ملادے ۔۔۔بیٹی : نہیں اماں نہیں۔۔۔ ماں : بیٹی تھوڑا سا پانی ملادے کونسا عمر تجھے دیکھ رہا ہے ۔ بیٹی: اماں عمر تو نہیں دیکھ رہا ہے عمر کا خدا تو دیکھ رہا ہے ۔ اتنی بات سن کر عمر رضی اللہ تعالٰی ا س گھر کے دروازے پر نشان لگا کر واپس ہولیئے ۔جب صبح ہوئی تو آپ نے اپنے بیٹوں کو یہ واقعہ سنا یا اور اپنے بیٹے عاصم کا نکا ح اس لڑکی کے ساتھ کردیا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جس گود میں عمر بن عبدالعزیز ؒجیسا عظیم مومن حکمران اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت حاصل کررہا تھا وہ حضر ت فاطمہ یعنی حضرت عاصم کی زوجہ تھیں اوروہی خاتون تھیں جو دودھ میں پانی ملانے سے انکارکررہی تھیں۔ آج اپنے تمام تر شیطانی الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہتھیاروں سے لیس مغرب نے اسی پہلے دائرے کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے وہ مائیں تیار ہورہی ہیں جن کی آئیڈیل ہالی وڈ اور بالی ود کی اداکارائیں ہیں ۔ ان سے حضرت خدیجہ اور حضرت فاطمہ کا دامن چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہے یہ ہم سب کی ذمہّ داری ہے کہ اس پہلےدائرے کی حفاظت کریں ۔والدین کو چاہیئے کہ اپنی بیٹیوں کو اپنا آئیڈیل حضرت خدیجہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی کو بنانے کی ترغیب دیں ۔
دوسرا دائرہ جب بچہ کتاب و قلم تھامے مدارس کا رخ کرتاہے اس دائرے کی بھی اہمیت کم نہیں ہے مگر درجہ کے اعتبار سے اس کا دوسرا درجہ ہے ۔جہاں اس کی ملاقات اساتذہ اور ایک نئے تدریسی ماحول سے ہوتی ہے یہاں بھی بچّوں کے مختلف قسم کے رویوں کا اظہا ر ان کے پہلے دائرے کی تعلیم و تربیت کا اظہار ہوتاہے مثلا بہت سارے بچے بات بات پر جھوٹ بولتےہیں گالیاں تک ایک دوسرے کو دیتے ہیں یہ بچے جھوٹ اور گالیاں سیکھ کر نہیں دنیا میں آتے بلکہ اپنی ماں سے سیکھتے ہیں دوسری طرف کچھ بچّے سچ بولنے کی عادی ہوتے ہیں اچھی گفتگو کے طور طریقے سے آگا ہ ہوتے ہیں یہ بھی ماں کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہوتاہے ۔اس دائرے میں ریاست بھی بچے کی تعلیم و تربیت میں شامل ہوجاتی ہے مثلا وہاں کا ایک تعلیم نصاب ہوتاہے اور اسی کے مطابق بچّوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ آگے بڑھتاہے ۔تعلیم و تربیت میں ریاست کا کردار ہی تو تھا کہ جس نے صفّہ کے چبوترے سے فارغ التحصیل طلبہ کو دنیا کے سامنے امام کی شکل میں بہترین قیا دت ، بہترین اساتذہ ، بہترین سیاست دان ، بہترین سائنس دان اور دانشور دنیا کو دئیے جس کی نظیر دنیاآج تک پیش کرنے سے عاجز ہے۔اس دائرے میں خرابی کی ذمہ دار بھی ریاست ہوتی جس کا نتیجہ آج کے کرپٹ، بدکردار عالمی اور پاکستانی حکمران طبقہ ہے یہ طبقہ بھی ایسا نہیں ہے کہ یونہی آگیا بلکہ یہ ہاورڈ یونیورسٹی ، آکسفورڈ یونیورسٹی ، کیلیفورنیا اور کیمبرج سےاور کسی درجے میں ہماری جامعات سے آیا ہے ۔اس دائرے کی بہتری اور اس میں موجود خرابیوں کو دور کرنے کے لیے انفرادی کوشش کارگر ثابت نہیں ہوگی بلکہ اس کے لیے نظام کے تبدیلی ضروری ہے ۔ہمیں اس طرف بھی توجہ کرنی ہوگی ،یہ ہماری اجتماعی زمّہ داری ہے کہ اس دائرے کو درست رکھنےکی کوشش کریں ۔
تیسرا دائرہ یہ پورا معاشرہ ہے جو کہ گلی سے لے کر پورا وہ ماحول اور اس میں موجود افراد ہیں جس کے درمیان رہتے ہوئے انسان بہت کچھ سیکھتاہے اور اس کے اثرات اس کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔مثل کے طور پر ہمارا قبائلی معاشرہ ہمارے شہری معاشرے سے جدا ہے قبائلی معاشرہ روایات اور اقدار کا پابند ہوتاہے مگر شہری معاشرہ اس طرح سے پابند نہیں ہوتا بچّہ جب ماں کی گود سے اتر کر درسگاہ جاتا ہے اور اس کے بعد وہ گھر سے باہر کھیلنے کے لیے نکلتاہے تو اب یہ معاشرے کی گود میں تعلیم و تربیت کے منازل طے کرتاہے ۔ جہا ں پارک ہیں میدان ہیں بازار ہیں ہر طرح کے بچّے اور لوگ اس کے ارد گرد موجود ہیں جوکہ اس کو لمحہ لمحہ کچھ نہ کچھ سکھا رہے ہوتےہیں ۔ایک ایسا معاشرہ جہا ں محبت احترام موجود ہوایک انسان دوسرے سے انسان کسی طرح کا خطرہ محسوس نہ کرے ، جہاں ایک دوسرے کی مدد کرنا کلچر کا حصّہ ہو ،لیکن جب ان تمام خوبیوں کو ملیا میٹ کرنے کی کوشش ریاستی سطح پر کی جائے تو بھی یہ پورے معاشرے کے ان لوگوں کی ذمّہ دار بنتی ہے کہ وہ اس کوشش کے سامنے سدّراہ بنے اور اجتماعی کوششوں سے معاشرے کو درپیش خطرات سے بچانے کی کوشش کریں اور اس کو اپنا فرض جانے کیونکہ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ ا یک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے نیک کاموں کا حکم کیا کرو،اور برے کاموں سے روکا کرو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر ایساعذاب نازل کرے ،پھر تم اس سے (عذاب دور کرنے کی )دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے۔ (ترمذی)