گزشتہ اتوار کو سندھ بھر میں ’’ سندھی ثقافت کا دن ‘‘ منایا گیا۔ اس کو ایکتا یعنی یکجہتی کا دن بھی کہا جاتا ہے۔اس دن بلکہ اس سے ایک دن قبل ہی سندھ بھرکے مختلف شہروں میں جلوس نکلنا شروع ہوئے۔ اتوار 6 دسمبر کو تو کراچی سمیت پورے سندھ کے ہر شہر میں جلوس، جلسے، لوگوں کے اجتماعات منعقد ہوئے۔ لوگوں نے بہت جوش و خروش اس سے دن کو منایا۔ ذرائع ابلاغ میں بھی اس کو بہت پذیرائی ملی ۔ نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار صاحب نے بھی اس دن کے موقع پر مبارک باد کا پیغام بھیجا۔
یقیناً ثقافتی سرگرمیاں ہونا بہت اچھی بات ہے اور ان کو سراہا جانا چاہیے لیکن ذرا ایک منٹ رکیے! کیا یہ سال 2020 نہیں ہے؟ کیا پوری دنیا سمیت وطنِ عزیز بھی ماہِ فروری سے کورونا کی وجہ سے متاثر نہیں ہے؟ کیا مارچ سے لے کر جولائی تک ہم نے ایک طویل لاک ڈائون نہیں دیکھا؟ کیا 22 فروری سے لے کر ستمبر 2020 تک ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے بند نہیں رہے تھے؟ کیا اس دوران میں اسکول، بازاروں سمیت مساجد تک میں پابندی نہیں لگائی گئی تھی ؟ کیا نومبر کے اواخر سے ہم دوبارہ کورونا کی دوسری لہر کا سامنا نہیں کررہے؟ کیا اس کی وجہ سے دوبارہ تعلیمی ادارے بند نہیں ہوگئے؟ کیا ملک پر اس وقت دوبارہ لاک ڈائون کے بادل نہیں چھا رہے؟
یقیناً ایسا ہی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ دن رات کورونا کا خوف پھیلانا والے میڈیا نے سندھی ثقافت کے دن پر ہونے والے اجتماعات کے خلاف آواز نہیں اٹھائی؟ میں نے اتوار کومختلف ٹی وی چینلز کی خبریں سنیں، ہر چینل پر اس کو مثبت انداز میں پیش کیا گیا۔ اگلے دن پیر ۷ دسمبر کے اخبارات کو دیکھا، میں ڈھونڈتا رہا کہ کہیں کوئی کہتا کہ اس کی وجہ سے کورونا پھیل رہا ہے، کہیں اس حوالے سے کروناپھیلاؤ کی کوئی خبر نظر آتی۔ لیکن مجھے ایسی کوئی خبر نظر نہیں آئی۔اب سوال یہ ہے کہ کہاں گئے وہ ڈاکٹرز جو عوام سے سماجی فاصلے کی اپیلیں کرتے رہتے ہیں؟ کہاں ہی وفاقی حکومت کے وہ ذمے داران جنہوں نے 3 صوبوں کی مخالفت کے باجود تعلیمی ادارے بند کرادیے؟ کہاں ہی وہ سارے کرائے کے حکومتی ترجمان جو اپوزیشن کے جلسوں پر کورونا پھیلانے کا الزام لگاتے ہیں اور کہاں ہے وہ بے پیندے کا لوٹا وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی جس کو علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے پر لاکھوں لوگوں کے آنے پر تکلیف ہوئی تھی؟ وزیر اعظم عمران خان، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، شہباز گل، شبلی فراز اور دیگر روزانہ کورونا کا رونا روتے ہیں لیکن اس پر کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔
ایسا لگتا ہے کہ کورونا صرف مذہبی اجتماعات، نماز اور اسکول سے پھیلتا ہے۔ باقی کہیں سے نہیں پھیلتا۔ اپوزیشن کے جلسے جلوس سے کورونا پھیلتا ہے البتہ اگر کرائے کی ترجمان فردوس عاشق اعوان عوامی اجتماع میں ٹائلز توڑیں یا سیال کوٹ میں ریلی لے کر پہنچیں تو کورونا نہیں پھیلتا۔ پی ڈی ایم کے جلسوں سے کورونا پھیلتا ہے لیکن اگر اسد عمر سندھ میں جلسہ کریں تو کورونا نہیں پھیلتا۔
اس سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اصل مسئلہ کورونا کا پھیلائو نہیں بلکہ اصل مسئلہ کچھ اور ہی ہے۔میڈیا اور سیاست دانوں کا اصل مقصد قوم کو منتشر کرنا، اس کو لسانی، گروہی اور ثقافتی اکائیوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اسی لیے لسانیت کی بنیاد پر منائے گئے ایک اجتماع کے حوالے سے کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ میں پوری ذمے داری کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ اگر اتوار کو ثقافت ڈے کی بجائے کوئی مذہبی اجتماع ہوتا یا اپوزیشن کا کوئی جلسہ ہوتا تو اب تک سارے کرائے کے ترجمان، حکومتی ذمے داران اور بڑے بڑے ٹی وی چینلز کے معروف میزبان قوم کو کورونا کے پھیلائو سے ڈرا رہے ہوتے۔
جب عید کے اجتماعات پر پابندی لگ سکتی ہے۔ نماز باجماعت پر پابندی لگ سکتی ہے اور اسکول بند کیے جاسکتے ہیں تو پھر اس طرح کے جلسے جلوس پر بھی پابندی لگانی چاہیے۔