بیسويں صدی مسلمانان برصغیر پر جہاں بہت سارے امتحانات کی صدی ہے وہیں اس صدی میں بہت سی عالمگیر شخصیات نے تعلیم یافتہ طبقہ پر ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ جن میں سید مودودیؒ ،حضرت علامہ اقبالؒ ، ڈاکٹر اسراراحمدؒ ، اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کی آواز اور فکر نے تحریک اسلامی کو بہت جلا بخشی ہے۔ ہمارے ہاں بن دیکھی ،دوسروں سے سنی بات کو ریفرنس بنانے کا کلچر بہت زور پکڑ رہا ہے، حقیقت پسندی اور تحقیق سے کوسوں دور اس قوم نے بہت نقصان اٹھایا ہے پوری دل جمعی سے اگر اسلام کا جامع تصور سامنے رکھا جائے تو ان دور اندیش اصلاح کاروں کو بھولنا کسی بڑ ی حماقت سے کم نہیں ہے۔
ان تمام حضرا ت نے اسلامی تشخص و تہذیب ، احیائے دین اور اندھی مغرب پرستی سے عوام الناس کو بیدار کیا ہے، ہمارا بہت سااعلی تعلیم یافتہ طبقہ مکمل طور پر مغر بی تہذیب کا دلد ادہ ہو چکا ہوتا اگر، یہ لوگ اسلا م کو چند رسو ما ت تک محد و د رکھتے، جمود کو جو کاری ضرب انکی فکر سے لگی پورا مغر ب آج بھی اس سے حواس باختہ ہے،یہ وہ حقیقت ہے جسے کسی صورت انکار نا ممکن ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حضرات کے نزدیک فہم اسلام کیا تھا؟ اور وہ کونسا اسلام غا لب دیکھنا چاہتے تھے؟ کیا اسلام صرف چند عقائد ، عبا دا ت ، اور رسم ادا کر دینے کا نام ہے ؟ قرانی فکر ، سیر ت پاک ، اور 30 سالہ خلافت راشد ہ کا تھوڑا سا بھی فہم رکھنے والا انسان سچا اور کھرا جواب جانتا ہوگا کہ:نہیں، بلکل بھی نہیں ۔۔!!!اسلام تو انسانی زندگی میں تحریک پیدا کرنے والا پورا ضا بطہ حیات ہے جو ایمانیات ، عبادات ، اخلاقیات ، معاملات ، سماجی معاشی و سیاسی معاملات کا پورا کامل رہنما ہے۔ زند گی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں پر اسلام انسانی فطرت کے مطابق راہِ ہدایت نہ ہو۔
یہی فکر سید مو دو دیؒ نے اصل فہمِ دین کے ساتھ لوگوں میں دوبارہ اجا گر کرنے کی عملی کوشش کی، اسلام کے تصور حیات کو واضح کیا، ایک شاندار تحریک کا آغاز کیا، قرآن کو عام فہم کیا ، (جدید دور میں اصل فکر) قرآن سے لوگوں کو ہم آہنگ کیا ، عمرانی فکر بھی دی تاکہ شد ت پسندی ، اور جمہوری روایات اسلام سے ایک اسلامی جمہوری ریاست کی بنیاد رکھی جا سکے۔
وطن عزیز میں 70 سال تک اسی فکر کو اسلامی تحریکو ں نے عام لوگوں تک پہنچا نے کی زبردست تگو دو کی، بشر ی تقا ضے کے پیش نظر کچھ کمی کوتاہی قابل قبول بات ہے مگر حق و صداقت کے چراغ کبھی گل نہیں ہو کرتے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اب چاہے اکتسا بی بنیادوں پر ہویا خالص روحانی بنیاد پر جمو د ٹوٹ رہا ہے،تحرّک پل بڑھ رہا ہے، اس خوش آئند بات کوقدر کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔
حق کی تمام ندیا ں کبھی کسی صورت جدا نہیں رہ سکتیں، آخر جب مقا صد ایک ہوں تو فاصلے کبھی سدا نہیں رہتے، وه سمندر کی تیز لہروں کی مانند نا حق کو بہا کر ہی دم لیتی ہیں،
پاکستان میں موجودتمام لبرل سیاسی جماعتیں اگر مفادات کی بنیاد پر اکٹھ کر سکتی ہیں تو اسلامی و فلاحی جماعت کیوں ایک نہیں ہو سکتی ؟ بہر حال یہ بھی ما ضی کے طرز کا ایک سوال ہی ہے۔
تحریکیں کبھی ختم نہیں ہوا کرتيں، انہیں حالات کے مطابق از سر نو دوبارہ اٹھنا ہوتا ہے، انکے مفادات نہیں ہوتے ،وه صرف اپنے رب کی رضا کے لیے جبر و ستم کے سامنے صف آرا ہوتی ہیں، انصاف کا بول با لا ، قوم کے اجتماعی معاملات کو درست کرنا انکا مقصد ہوتا ہے ، اور ہونا بھی چاہیے۔تحریک کے ساتھ چلنے والے کبھی نہیں ڈو بتے، غوطہ زن ہوتے ہوئے بھی موجوں سے لڑتےہیں، پیچ و خم پی جاتے ہیں یا ا مر ہو جاتے ہیں ورنہ صبح روشن ضرور دیکھتے ہیں، انہی کے دم سے حق زندہ رہتا ہے اور ناحق کو زمین بوس کردیا جاتاہے۔
پاکستان بھی خدائے واحد کی بڑ ی نعمت میں سے ایک ہے، اس کو بھی اسلا م کی عملی تجربہ گاہ بننا ہے، آج نہیں تو کل۔۔!! آخر مقصد پورا ہو کر رہنا ہے، امتحان ہے تو صرف ہمارا، کہ ہم تمام معاملات میں دین کو او لین ترجیح دیتے ہیں یا نہیں، یہی اصل انقلاب ہے، صرف انقلاب۔۔!!
جس کواقبال نے کیا خوب کہا:
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
رُوحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب
انقلاب ہی زندگی ہے ، بغیر انقلاب صرف موت ہے، زندگی صرف زندہ رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ حالات کے رخ موڑ نے کا نام ہے۔