جوش ملیح آبادی ہمارے اردو ادب کے ایک اہم شاعر تصور کئے جاتے ہیں۔ آپ کو شاعر شباب اور شاعر انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔جوش کے کلام میں آہنگ، نغمگیت، موسیقیت، عظمت انسانی کے پہلوں، کردار نگاری کی بہترین مثالیں، انسانی نفسیات اور معاشرے کی پھلی ہوئی برائیوں کی ترجمانی دیکھنے کو ملتی ہے۔آپ کا شمار ترقی پسند شاعروں میں کیا جاتا ہے۔اس لیے جوش نے عام انسان کے درد و غم اور اس کے استحصال کی بھی ترجمانی کی ہے۔ ان کے کلام میں تشبیہات اور استعارات کی ایک نئی دنیا دیکھنے کو ملتی ہے۔ جوش نے اپنی نظموں میں ایسے ایسے کمالات دیکھائے ہیں جس کا مطالعہ کرنے کے بعد عقل حیرت کے سمندر میں غرق ہو جاتی ہے۔یہ ہی وہ خصوصیت ہیں جو ان کو اپنے ہم عصر شعراء میں منفرد پہچان دیلاتی ہے۔ یوں تو جوشؔ نے بہت سی شاہکار نظمیں تخلیق کی ہیں لیکن ان کی نظم” رشوت” ایک الگ ہی نوعیت کی حامل ہے آئیے اس مضمون میں ان کی نظم” رشوت” کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہیں۔
جوش نے اپنی اس نظم میں رشوت خوری کے ساتھ ساتھ سماج کی نابرابری ظلم و جور استحصال مہنگائی کی مار اور انسانی نفسیات و خواہشات کی شاندار مرقع کشی کی ہے اور سماج کے جھوٹے رسم و رواج پر طنز کیا ہے۔ جوشؔ اس بات کی طرف بھی قاری کو توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ کس طرح رشوت خوری کا بازار معاشرے میں گرم ہے اور کیسے کیسے جرائم اس کے سبب جنم لے رہے ہیں۔
جوش نے اس نظم میں ایک ایسے نظام کی عکاسی کی ہے کہ کس طرح رشوت نے اپنا قبضہ معاشرے میں جمع رکھا ہے۔جب وہ رشوت لینے والے کو غیرت دلاتیہیں۔ تو وہ نئے نئے بہانے بنانے لگتا ہے اس کو جائز بتاتا ہے۔ جوشؔ کی نظم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ ایک رشوت لینے والا کہتا ہے لوگ ہم سے کہتے ہیں رشوت لینے کی عادت کو ترک کر دیں رشوت لینا چھوڑ دیں رشوت خوری انسان و انسانیت کے لئے ٹھیک نہیں۔ اس سے توبہ کر لیں یہ ایسی تجارت ہے جو سماج کو برباد کر رہی ہے اور اخبارات میں بھی اس کی برائی کے بارے میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ کیوں کہ یہ سماج کے لئے ایک بری عادت ہے تصور کی جاتی ہے۔لیکن اگر ہم رشوت نہ لیں تو پھر اس مہنگائی کے دور میں اپنے آخراجات کو کس طرح پورا کریں۔ اگر رشوت کے نظام کو ختم کرنے کے لیے ہم رشوت لینے والوں کو قید کر لیں اور ان کو سزایں بھی دیں تب بھی وہ اپنی عادت سے باز نہیں آتے ہیں۔ کیوں کہ آج کے دورمیں جس طرح اس مہنگائی نے سر اٹھا رکھا ہے اور ایک ادنیٰ سی دیکھنے والی رائی کی قیمت پہاڑ کے جیسی بلندی چھو رہی ہے یعنی مہنگائی آسمان پر پہنچ چکی ہے۔
رشوت کے ساتھ ساتھ کالابزاری بھی اہم ہے کیوں کہ کالابزاری کے سبب ہی چیزوں کے دام بڑھے ہیں چاہے وہ مل والے ہوں،دکاندار ہوں یا ساہوکار ہوں سب کے سب چور و ڈاکو ہیں جو عام آدمی کا خون چوس رہے ہیں۔ادھر غریب اور غریب ہوتے جا رہے ہیں اور امیروں کی تجوریاں بھرتی جا رہی ہیں اس ملک میں امیروں کے لیے کوئی قانون نہیں اور ایک انسان جرم کے راستے پر نکل پڑتا ہے اور سماج میں نئی برائیوں کو جنم دیتا ہے۔
جوش اس بات کی طرف نظر دلانا چاہتے ہیں کہ رشوت لینے سے کیا کیا نتائج سماج کے سامنے آرہے ہیں۔ اور اس سیمعاشرے پر کیا اثر پڑتے ہیں۔ جوش نے نظم رشوت کی مکمل عکاسی کی ہے اور وہ انسانی فطرت و نفسیات کی ترجمانی بڑے دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں۔ جب وہ رشوت لینیوالو سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کیا ہم ہی اس سماج میں برائی پھیلا رہے ہیں بلکہ یہاں ہر کوئی اپنے اپنے عیب چھپا رہا ہے کوئی موٹی موٹی توند لے کر چلتا ہے تو کوئی بھوکا تڑپ رہے ہے۔کہیں کوئی اچھے پکوان کھاتا ہے تو کسی کو روٹیوں کے لالے پڑے ہیں۔ یعنی یہاں جوش نے سماج کی نابرابری کی منظر کشی کی ہے۔
اگرایسی صورت حال میں بھی یہ لوگ رشوت نہ لیں کسی طرح گزر بسر کریں۔ ان پر حاوی انسانی خواہشوں نے بھی اس رشوت خوری کے بازار کو گرم کر رکھا ہے۔ ہر شخص جلدی امیر اور کامیاب بنا چاہتا ہے۔جب ان کو ٹوکا جائے تو کہتا ہے۔ نصیحت کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنے عیب تلاش کریں۔پھر ہم پر انگلی اٹھائیں۔ پرہیزگاری عقل مندی کی باتیں کرنا جتنا آسان اور سہل ہے ان پر عمل کرنا اتنا ہی مشکل۔
اکثر یہ رشوت خورافراد اپنے عیب چھپانے کے لئے مہنگائی کا رونا روتے ہوئے کہتے ہیں۔ایسے حالت میں بھلا کوئی آدمی کس طرح ایمانداری سے کام کر سکتا ہے جہاں پر ایک پتلون کی سلائی کے لیے درزی آدمی کو نچوڑ لیتا ہے۔ اب ہم کیا کیا شکوہ کریں کہ ہم پر کیا کیا ستم ہوئے ہیں۔جو کچھ ہمیں بزرگوں سے ملا ہے وہ اس مہنگائی کی نظر ہو گیا یہ تو بھلا ہو اس رشوت کا جس نے سہارا دیا ورنہ اس پریشانی کے دور میں بھوکا رہنا پڑتا۔
جب آدمی کرسی نشین ہو کر رشوت لیتا ہے تو وہ خود کو بادشاہ تصور کرتا ہے۔اور اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ عام لوگ اس کے غلام ہیں اور اس کی سر پرستی میں ہیں۔ مگر اس نابرابری کے نظام کو ختم نہیں کیا جاتا اور ہم غریبوں کو گالیاں دیتے ہیں۔سرکار کو چاہیے پہلیمعاشرے میں پھیلی نابرابری کی تقسیم ختم کرے اورعوام کیحقوق ادا کرے۔ تاکہ لوگ زندہ رہنے کے لیے رشوت کا سہارا نہ لیں مگر ایسا نہیں ہوتا اورکرسی نشین افراد اپنا موٹا پیٹ بھر نے میں لگے نظر آتے ہیں۔ رشوت لینا شروع کر دیتے ہیں اوراس کو اچھا فعل سمجھتے ہیں۔ نظم کیآخر میں رشوت لینے والا جوش سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ارے میاں! اپنی خستہ حالت تو دیکھئیے ایسا لگتا ہے آپ پر بھی وقت سے پہلے قیامت گزر گئی ہے۔ پھر بھی آپ ہم کو غیرت دلاتے ہیں جب کہ آپ اتنی محنت کرنے کے بعد بھی اس معاشرے میں ایک اچھی زندگی نہیں گزار پا رہے ہیں۔الغرض جوش کی یہ قاری کے ذہن و دل کو جھنجھوڑ کر رکھ یتی ہے،اور معاشرے میں نابرابری کی تقسیم پر طنز کرتی ہوئی نظر آتی ہے،کہ کس طرح سماج بڑے سرمائیدار افرار غریبوں کا استحصال کرنے پر آمادہ ہیں۔