میں خود اور میرے بہت سے دوست ایسے ہیں جو روز مرہ اردو تکلم میں تذکیر و تانیث میں کئی دفعہ تردد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر جو لوگ شروع سے انگلش بولتے ہوں یا پشتو ان کی مادری زبان ہو تو ان کے ساتھ یہ معاملہ اور بھی سنجیدگی اختیار کر جاتا ہے۔میں نے اپنی تحریر میں ان دو زبانوں کا تخصیص سے ذکر اس لئے کیا کیوں کہ میری محدود نظر صرف ان ہی کا اندازہ لگا سکی۔
انگلش تکلم کی نظیر کے طور پر میں ملک کی ایک سیاسی شخصیت کو پیش کرنا چاہتا ہوں، اگر ٹی وی پر ان کی پریس کانفرنس یا کسی جلسہ سے خطاب چل رہا ہوتو میں اسے سننے کے بجائے اگلے روز اخبار میں پڑھنے کو ترجیح دیتا ہوں، یوں میری اردو سے محبت پر ان کی تقریر براہ راست اثر انداز ہونے سے بچ جاتی ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایسے بہت سے لوگوں سے واسطہ بھی پڑا جو مادری زبان پشتو یا کوئی اور ہونے کے باوجود اردو ایسی شُستہ بولتے کہ اردو تکلم والے بھی ان کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ سب کثرت مطالعہ ہی کا کمال تھا۔
جہاں تک اپنی قومی زبان اردو کے مسئلہ تذکیر و تانیث کی بات ہے تو غور کرنے پر اس کی کچھ مشابہت عربی کے ساتھ بھی سمجھ آتی ہے۔ اگرچہ عربی تکلم میں تذکیر و تانیث کا ایسا مسئلہ نہیں ہے، لیکن ایک اور معاملہ میں عربی زبان اور اردو مشترک دکھائی دیتی ہیں۔ جن حضرات کا عربی سے کبھی واسطہ پڑا ہو تو وہ بخوبی جانتے ہیں کہ عربی زبان میں ”ثلاثی مجرد افعال‘‘ کے چھ ابواب ہیں۔ لیکن کون سا ”فعل‘‘ کس” باب‘‘ سے ہے؟ اس واسطے عربی میں کوئی خاص ضابطہ وضع نہیں ہے۔ اگرچہ کچھ حضرات نے فصحاء و بلغاء کے کلام سےدلیل پکڑتے ہوئے کچھ افعال کو کچھ ابواب کے ساتھ خاص کر دیا ہے ۔ لیکن کوئی ”قاعدہ کلیہ‘‘ کہ آپ کے سامنے فعل آئے اور آپ اس قاعدہ کے پیش نظر اس فعل کا باب بیان کر دیں ، ایسا نہیں ہے۔ ہاں البتہ کچھ ایسی علامات ضرور ہیں جن سے آپ چند افعال کو چند ابواب کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں۔ جب ہمیں یہ سبق پڑھایا جارہا تھا تو استاد محترم نے ایسی بہت سی باتیں ہمیں ذہن نشین کرانے کے بعد کہا: بقیہ افعال کےابواب پرکھنے کا ذریعہ صرف ”سماع‘‘ہے۔ یعنی جس فعل کو آپ اہل لسان سےجس باب میں سنیں اسے،اسی باب میں شمار کر لیں۔
بالکل یہی حل اردو زبان کے مسئلہ تذکیر و تانیث کا بھی ہو سکتا ہے۔ کہ کون سالفظ مذکر ، کون سا مؤنث ہے اس میں ”سماع ‘‘ ہی مدد گار ہوگا۔کیونکہ اس مسئلہ کے حل کے لئے بھی کوئی قاعدہ کلیہ (ہر جگہ فٹ ہونے والا) نہیں ہے۔ ہاں البتہ اکثری ضابطہ ہو سکتا ہے؛ جیسے مثال کے طور پر جس لفظ کے آخر میں ”الف‘‘ ہو وہ اکثر مذکر ہوتا ہے جیسے: لڑکا، کھمبا،،مرغا، ڈنڈا، گدھا وغیرہ۔ اورجس کے آخر میں چھوٹی ”ی‘‘ ہو وہ لفظ مؤنث ہوگا۔ جیسے، لڑکی، گاڑی، ریڑھی، لڑی، پری وغیرہ۔لیکن یہ قاعدہ ”اکثریہ‘‘ کہلاتاہے جس کا مطلب ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا، کیونکہ اگر ہمیشہ ایسا ہوتا تو چڑیا، کُتیا الفاظ مذکر کہلاتے اور پانی، مالی، دہلی وغیرہ الفاظ مؤنث ہوتے، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔
اسی تناظر میں پچھلے دنوں ایک چھوٹا سا مکالمہ نظر سے گزرا کہ ایک صاحب نے سوال کیا کہ میں اکثر لکھنے، بولنے میں تذکیر و تانیث کی غلطی کر جاتا ہوں۔اس مسئلہ کو سمجھنے کے کلیدی اصول کیا ہیں؟ مسئول نے جواب دیا کہ آپ موقع کی مناسبت سے خود ہی اس مسئلہ کو حل کر سکتے ہیں، وہ اس طرح کہ ایک کبوتر کو دانہ ڈالیں ، پھر دیکھیں اگر وہ دانہ چگتا ہے تو مذکر اور اگر چگتی ہے تو مؤنث۔ تو کسی کہنے والے نے کہا: محترم اگر وہ دانہ چگنے کے بجائے چونچ میں لے کراڑ جائے تو پھر کیا ہوگا؟ یہ اشکال سن کر ہم بھی کچھ لمحات کے لئے ششدر رہ گئے لیکن مسئول نے جواباً فرمایا اس میں پریشانی کی کیا بات ؟ اگر تو وہ دانہ لے کر اڑگیا تو مذکر ہے اور اگر اڑ گئی تو مؤنث۔
خیر عرض یہ کر رہاتھا کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے کوئی ضابطہ تو نہیں ہے جسے یاد کر لیا جائے ، البتہ کچھ تدابیر ضرور ہیں۔
پہلے تو اردو بول چال والوں سے تکلم کرنے کی کوشش کریں ، چاہے اردو کی ہڈی پسلی ایک ہو جائے لیکن اس کی جان نہ چھوڑیں، یوں وہ آپ کی جان جانان بن جائے گی۔
دوسرا کام یہ کریں کہ اردو کے منجھے ہوئے مصنفین کی اعلی کُتب سے تعلق جوڑے رکھیں، یوں آپ کی اردو میں تسلسل اور روانگی پیدا ہو جائے گی اور تذکیر اور تانیث کا مسئلہ بھی کافی حد تک حل ہو جائے گا۔
تیسرا کام یہ کریں کہ اعلی سے اعلی اردو لغت کا اساتذہ کے مشورہ سے انتخاب کریں۔ اور اپنے بستر کی سائڈ ٹیبل پر اس کے لیے خصوصی جگہ بنائیں تاکہ ہنگامی صورتحال میں کسی لفظ کی تحقیق کرنے پر آپ کو اسے تلاش کرنے کی زحمت نہ اٹھانا پڑے۔ جیسے مثال کے طور پر ”فرہنگ آصفیہ‘‘ اردو کی ایک مشہور لغت ہے۔ میں نے یہ لغت عزیزم غلام جیلانی صاحب کے مشورہ سے تین سال قبل خریدی تھی، تو حیر ت انگیز تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ ایک تو لفظ کے صحیح معنی سے واقفیت حاصل ہوتی ہے اور دوسرا تذکیر اور تانیث کا مسئلہ بھی مثالوں کے ساتھ واضح ہو جاتا ہے۔
چوتھا حل جو مذکورہ بالا تینوں طریقوں سے بھی زیادہ آسان ہے وہ یہ کہ آج کل انٹرنیٹ کا دور ہے۔ جس لفظ کی جنس پر آپ کوذرا برابر بھی تشویش ہو اس کے ساتھ حسب ضرورت ” کا‘‘ یا ”کی‘‘ (یا کوئی بھی لفظ جو آپ کو جنس پہچاننے میں مدد دے) لگا کر گوگل کے حوالے کردیں، تو وہ اس کا سار کچا چٹھا کھول کر آپ کےسامنے رکھ دے گا۔ جس میں تذکیر ،تانیث، املاء اور استعمال ہر چیز مستند ذریعہ سے آپ تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ طریقہ آسان ضرور ہے لیکن کبھی کبھار نظر میں کسی ”ہم“ جیسے کی تحریر بھی آسکتی ہے تو اس لئے متعدد تحاریر پر سے نظر گزارنا نہایت ضروری ہوگا۔
ایک بات جو میں ذکر کرنا بھول گیا وہ یہ کہ گوگل پر سرچ کرتے ہوئے اردو رسم الخط ہی کا استعمال کیجئے گا،بصورت دیگر بھیانک نتائج سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔
پانچواں ، آخری اور نہایت اہم کام وہ یہ کہ اگر آپ نے اس سب کا ارادہ کر لیا ہے تو آپ کی کامیابی کا ایک مرحلہ طے ہو چکا ہے اگلا اور آخری مرحلہ اس ارادے پر بشرط استقامت عمل کرنا ہے۔ پھر ان شاء اللہ آپ کو کامیاب ہونے سے اردو کی تذکیر وتانیث کا مسئلہ تو کیا خنثی مشکل بھی نہیں روک پائے گا۔